دو بچے پالیسی: چین کے لیے 30 ملین ورکرز
10 نومبر 2015چین کے نیشنل ہیلتھ اینڈ فیملی پلاننگ کمیشن کے ترجمان وینگ پائی آن نے آج 10 نومبر کو ایک نیوز کانفرنس کے دوران بتایا کہ جب چین باقاعدہ طور پر ایک خاندان ایک بچہ پالیسی میں نرمی کرتے ہوئے دو بچے فی خاندان کی اجازت دے دے گا تو ملک میں 90 ملین خواتین اس بات کی اہل ہو جائیں گی کہ وہ دوسرا بچہ پیدا کر سکتی ہیں۔
وینگ کے مطابق نئی پالیسی سے متوقع طور پر ابتداء میں ہر سال قریب تین ملین زائد بچے پیدا ہوں گے۔ چین میں گزشتہ برس 16.87 ملین بچے پیدا ہوئے اور ایک بچہ پالیسی میں نرمی کے بعد یہ تعداد 20 ملین بچے سالانہ ہو جانے کا امکان ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ چیز آبادی کے بارے میں چینی اہداف کے عین مطابق ہے۔
پیکنگ یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے علم شماریات کے ماہر لُو جیہوا کا کہنا ہے کہ ہر سال تین ملین اضافی بچوں کی متوقع پیدائش کے ساتھ 30 ملین بہت ہی محتاط اندازہ محسوس ہوتا ہے۔ لُو کے مطابق، ’’شاید یہ بات مد نظر ہو کہ ابتدائی چند سالوں کے بعد شرح پیدائش میں کمی واقع ہو جائے گی۔‘‘
وینگ کے مطابق نوجوان خون چین کی لیبر فورس میں عمر کے حوالے سے تبدیلی پیدا کرے گا، ملک کی بزرگ آبادی میں دو فیصد کمی کا باعث بنے گا اور معاشرے کی عمر رسیدگی کی شرح میں کمی لائے گا۔
ایک خاندان کو دو بچے پیدا کرنے کی اجازت دیے جانے کی پالیسی کا باقاعدہ آغاز اگلے برس موسم بہار میں ہونا ہے۔ وینگ کے مطابق اس پالیسی کو اپنائے جانے کے بعد جو خواتین دوسرے بچے کی پیدائش کی اہل ہوں گی وہ چالیس برس سے زائد عمر کی ہوں گی۔
نیشنل ہیلتھ اینڈ فیملی پلاننگ کمیشن کے ترجمان وینگ پائی آن کے مطابق ملکی فیملی پلاننگ ورکرز ایک اور بچے کی پیدائش کی درخواستوں پر کارروائی اور بچے کی دیکھ بھال کے لیے والدین کو مشورے دینے کے ذمہ دار ہوں گے۔ وینگ کے مطابق، ’’ان کا کام بڑھ جائے گا اور مشکل بھی ہو جائے گا، لہٰذا اس ٹیم کو مزید مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘
میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ چین بچوں کی پیدائش پر پابندی مکمل طور پر ہٹانے کے لیے تیار نہیں ہے کیونکہ آبادی کے لحاظ سے دنیا کے اس سب سے بڑے ملک کو اپنی آبادی کو کنٹرول میں رکھنے کی ضرورت ہے۔