دنیا کا سب سے بڑا مہاجر کیمپ نومبر میں بند کر دیا جائے گا
15 ستمبر 2016کینیا نے ہیومن رائٹس واچ کے ان الزامات کی تردید کی ہے جس میں کہا گیا تھا کہ کینیا حکومت مہاجرین کو ڈرا دھمکا کر وطن واپس جانے پر مجبور کر رہی ہے جبکہ ایسا کرنا ان تارکین وطن کے لیے غیر محفوظ ہے۔ انسانی حقوق کے گروپ ہیومن رائٹس واچ نے کہا تھا کہ کینیا مہاجرین کو اپنے ملک میں رہنے یا واپس لوٹنے کے درمیان صحیح انتخاب کا حق نہیں دے رہا ہے۔ مزید یہ کہ اقوام متحدہ کا مہاجرین کے لیے ادارہ بھی پناہ گزینوں کو صومالیہ میں درپیش خطرات کے بارے میں درست معلومات فراہم نہیں کر رہا ہے۔
کینیا کی وزارت داخلہ کے پرنسپل سیکرٹری کارانجا کابیچو نے تھامسن روئٹرز فاؤنڈیشن کو بتایا،’’ کیمپ بند کرنے کی ہماری حتمی حد اس سال نومبر تک ہے۔ ہم مہاجرین کے معاملات میں صحت اور شفافیت قائم رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ہم ایک خود مختار ملک ہیں جو سلامتی سے متعلق ایک معاملے سے نمٹنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اور جس حد تک ممکن ہے ہم انسانی بنیادوں پر اس مسئلے سے ڈِیل کر رہے ہیں۔‘‘
دوسری جانب کینیا میں یو این ایچ سی آر کے ایک ترجمان نےکہا ہے کہ اس معاملے پر کسی قسم کا رد عمل ظاہر کرنے سے پہلے ہیومن رائٹس واچ کی رپورٹ کا جائزہ لیا جائے گا۔ کینیا نے رواں برس مئی میں اعلان کیا تھا کہ وہ ’دباب‘ نامی مہاجر کیمپ کو صومالی اسلام پسند گروپ الشباب کے مہلک حملوں کے تناظر میں نومبر تک بند کر دے گا۔ اس کیمپ میں تین لاکھ سے زائد مہاجرین قیام پذیر ہیں جن میں زیادہ تر کا تعلق صومالیہ سے ہے۔
کینیا کی حکومت کا مؤقف ہے کہ الشباب نے’ دباب ‘ مہاجر کیمپ کو عسکریت پسندوں کو بھرتی کرنے کے کیمپ کے طور پر استعمال کیا ہے۔ خیال رہے کہ صومالیہ کو اسلامی شورش کا سامنا ہے اور عشروں سے جاری تنازعہ کے بعد اب تعمیر نو کی جد و جہد میں مصروف ہے۔