1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

دماغ کا اسکینر اب پہن لیجیے

عاطف توقیر
22 مارچ 2018

برطانوی سائنس دانوں نے بدھ کے روز برین اسکینر یا دماغ کا اسکین کرنے والا ایک ہیلمٹ نما آلہ متعارف کروا دیا ہے، جس کی وجہ سے اب کوئی مریض دماغ کا اسکین کرواتے ہوئے آزادانہ طور پر حرکت کر پائے گا۔

https://p.dw.com/p/2ul7P
Kernspinaufnahmen eines Gehirns
تصویر: Colourbox

اس قبل تو یوں ہوتا تھا کہ دماغ کا اسکین کرواتے ہوئے مریض ایک اسٹیچر پر لیٹتا تھا اور وہ پورا اسٹریچر حرکت کر کے اسکینگ مشین کے اندر داخل کیا جاتا تھا، تاہم یہ نیا ہیلمٹ نما اسکینر بڑی آسانی سے سر پر پہنا جا سکتا ہے۔

دنیا کی سب سے بڑی  دماغی رسولی نکال لی گئی

’الزائمر کی تشخیص فقط بلڈ ٹیسٹ سے ممکن‘

’ٹیلی ویژن دیکھنا صحت کے لیے نقصان دہ‘

ماہرین اس نئے اسکینر کو بچوں اور معمر افراد کی دماغی نگہداشت کے شعبے میں ایک انقلابی آلے سے تعبیر کر رہے ہیں۔ محققین کے مطابق ’ٹرانسفورمیٹیو‘‘ تصویری نظام کے تحت اس آلے کی مدد سے مریضوں کے دماغی افعال کو دیکھا جا سکتا ہے، جب کہ اس عمل کے دوران کوئی مریض جسمانی طور پر بالکل آزاد ہو گا۔ ماہرین کے مطابق اسکینگ کے دوران کوئی مریض انگڑائی لینے، گردن ہلانے حتیٰ کہ پنگ پانگ کا کھیل کھیلنے جیسے افعال تک میں آزاد ہوں گے۔

لندن کے یونیورسٹی کالج کے پروفیسر اور اس پروجیکٹ سے وابستہ گاریتھ بارنیس کے مطابق، ’’یہ ایک نئی طرز کا برین اسکینر ہے، جس کی مدد سے اعصابی تصویری ماحول کا جائزہ لیا جا سکتا ہے۔ اس سے قبل معالجین کی پہنچ اس انداز سے دماغ تک نہیں تھی، مثلاﹰ بچوں کو جسمانی طور پر آزاد چھوڑ کر ان کے دماغ کا تصویری معائنہ اس سے قبل اس طرح ممکن نہیں تھا۔‘‘

Flash-Galerie Alzheimer Diagnostik
تصویر: CHROMORANGE

اس وقت دماغ کی اسکینگ کے لیے مقناطیسی انسیفالو گرافی (MEG) اسکینر استعمال کیے جاتے ہیں، جو دماغ کی مقناطیسی فیلڈ کا جائزہ لیتے ہیں اور انہیں انتہائی سرد (مفی 269 سینٹی گریڈ) درجہ حرارت یا مطلق صفر درجہ حرارت پر چلایا جاتے ہے اور اس درجہ حرارت کے حصول کے لیے بھاری کولنگ مشینوں کا سہارا لینا پڑتا ہے۔

اس عمل کے دوران قریب نصف ٹن وزنی مشین چلائی جاتی ہے، جب کہ ایسے میں مریض کو بالکل سیدھا لیٹنا پڑتا ہے اور اسے کسی بھی قسم کی حرکت سے منع کیا جاتا ہے، تاکہ دماغ کی درست اور واضح تصاویر مل سکیں، تاہم اس طریقہ کار کا بچوں یا پارکنسن اور رعشہ جیسی بیماریوں کے حامل افراد پر استعمال نہایت مشکل ہے۔

برطانیہ کی یونیورسٹی آف نوٹِنگم اور یونیورسٹی کالج لندن کے محقیقن کے ٹیموں کی متعارف کردہ اس نئے اسکینر میں کولنگ نظام کے لیے کوانٹم برین سینسر استعمال کیے گئے ہیں اور اس طرح اب کسی بھی مریض کے دماغی افعال کو باآسانی دیکھا جا سکتا ہے۔