1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تاريخ

دعا کی کہانی: سمندر کی موجوں سے بھی طاقتور ایک امید

شمشیر حیدر
5 مارچ 2017

یورپ کی جانب ہجرت کے دوران دعا کا منگیتر بحیرہ روم کی خونی موجوں کی نذر ہو گیا۔ جب دعا کو ایک امدادی کارروائی کے دوران بچایا گیا، تب وہ دو معصوم بچوں کو بانہوں میں سنبھالے ہوئے تھی۔

https://p.dw.com/p/2YfiQ
Flüchtlinge Doaa
تصویر: UN-Flüchtlingswerk UNHCR

اپنے دھیمے اور معصوم انداز میں جب وہ اپنی کہانی سنا رہی تھی تو اس کے سامنے بیٹھے پندرہ صحافی اس کے انداز سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ جب اس نے گفت گو ختم کی تو ان صحافیوں نے خلاف معمول کھڑے ہو کر کافی دیر تک انہیں داد دی۔

دعا کی سچی اور پُر درد کہانی کو یو این ایچ سی آر سے وابستہ میلیسا فلیمنگ اور خود دعا نے مل کر ایک کتاب کی صورت میں شائع کیا ہے۔ کتاب کا عنوان ’’سمندر سے بھی طاقتور ایک امید‘‘ رکھا گیا ہے۔ فلیمنگ نے اقوام متحدہ کے مہاجرین کے امور سے متعلق اس ادارے سے اپنی وابستگی کے دوران سینکڑوں ایسے انسانوں کی کہانیاں سنیں اور دیکھیں، جو اپنے گھروں سے نکلنے کے بعد ’انسان‘ کے بجائے صرف ’مہاجر‘ بن کر رہ گئے تھے۔

دُعا نے بڑے تحمل کے ساتھ اپنے بچپن کے بارے میں بتایا۔ وہ جنوب مشرقی شام کے ایک قصبے میں اپنے خاندان کے ہمراہ رہتی تھی۔ جب بشار الاسد برسراقتدار آئے اور دمشق کی سڑکوں پر مظاہرے شروع ہوئے تب وہ محض چھ برس کی تھی۔ اس نے بتایا کہ جب اس کے باپ کی دکان تباہ ہو گئی تو انہوں نے مصر کی جانب ہجرت کا فیصلہ کیا۔

Buchcover "Doaa - Meine Hoffnung trug mich über das Meer"
دعا کی کہانی پر مبنی یہ کتاب انگریزی اور جرمن زبان میں شائع ہو چکی ہے

مصر میں تب مُرسی برسراقتدار تھے۔ دعا کے مطابق مصری عوام مُرسی سے خوف زدہ تھے لیکن جب السیسی نے اقتدار سنبھال لیا تو حالات مزید بگڑ گئے۔ تب دعا اور اس کے منگیتر باسم نے یورپ کا رخ کرنے کا فیصلہ کیا۔ ستمبر 2014ء میں وہ دونوں ایک کشتی میں سوار ہو کر بحیرہ روم میں اتر گئے۔ اس کشتی میں پانچ سو سے زائد افراد سوار تھے۔ دعا اس سفر سے ڈری ہوئی تھی کیوں کہ اسے تیرنا نہیں آتا تھا۔

اور پھر وہی ہوا جس کا خطرہ تھا۔ کشتی اُلٹ گئی۔ دعا اور باسم ایک ساتھ ہی تھے لیکن ان کے ارد گرد لوگ ڈوبتے جا رہے تھے۔ دو دنوں تک بحیرہ روم کے کھلے پانیوں میں وہ کشتی کو تھامے اپنی زندگی کی دعائیں کرتے رہے لیکن آخر باسم کی بانہیں شل ہو گئیں۔ دعا نے اسے اپنی آنکھوں کے سامنے ڈوبتے دیکھا وہ منظر آج بھی اس کی آنکھوں میں آنسو لے آتا ہے۔

دعا کے ہاتھ تیرنے میں مددگار ایک رنگ لگا اور وہ اس کی مدد سے تیرتی رہی۔ ایک ڈوبتے جوڑے نے اپنے دو ننھی بچیاں اس کے حوالے کیں اور دعا سے درخواست کی کہ وہ ان کا خیال رکھے۔ ایک بچی صرف نو ماہ کی تھی، دعا نے دونوں کو تھام لیا۔ پھر وہ جوڑا بھی سمندر کی لہروں کی نذر ہو گیا۔

دعا ان بچیوں کے ساتھ زندہ بچ گئی اور اٹلی پہنچ گئی۔ اس واقعے کے ڈھائی سال بعد اب دعا سویڈن میں مہاجر کے طور پر رہ رہی ہے۔ اسے امید ہے کہ ایک دن وہ اپنے وطن، اپنے گھر لوٹ پائے گی۔

دعا کی شریک مصنف فلیمنگ نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور مہاجر مخالف یورپی سیاست دانوں کا نام لیے بغیر کہا کہ کچھ سیاست دان لوگوں کے ذہنوں میں موجود ’اجنبیوں سے خوف‘ کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔

دو برسوں میں ایک لاکھ سے زائد پاکستانیوں نے یورپ میں پناہ کی درخواستیں دیں

جرمنی: طیارے آدھے خالی، مہاجرین کی ملک بدری میں مشکلات حائل

جرمنی میں خوش ہیں لیکن گھر یاد آتا ہے