دارالقضاء کے قیام کو طالبان نے مسترد کردیا
3 مئی 2009صوبہِ سرحد کی حکومت نے دارلقضاء کے قیام کے نوٹیفکفشن گزشتہ روز جاری کیے تھے جہاں مالاکنڈ ڈویژن میں حکومت اور طالبان کے درمیان نظامِ عدل معاہدے کے مطابق قاضی عدالتوں کے فیصلوں کے خلاف حتمی اپیل کی جاسکتی ہے۔ نظامِ عدل ریگولیشن یا عرفِ عام میں نفاذِ شریعت سے متعق طالبان اور حکومت کے درمیان معاہدے کی فریق کلعدم تنظیم نفاذِ شریعتِ محمّدی کے رہنما مولانا صوفی محمّد نے دارالقضاء کے قیام کو معاہدے کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے رد کردیا ہے۔
نفاذِ شریعتِ محمّدی کے ترجمان امیر عزّت خان نے تنظیم کی شوریٰ کے اجلاس کے بعد یہ اعلان کیا کہ دارالقضاء کا قیام نظامِ عدل معاہدے کی خلاف ورزی ہے۔ صوبہِ سرحد کے وزیرِ اطلاعات میاں افتخار حسین کا کہنا ہے کہ طالبان معاہدے کی بے شمار مرتبہ خلاف ورزی کرچکے ہیں اور یہ کہ دارلقضاء کا قیام معاہدے کے عین مطابق ہے۔
طالبان کا موقف ہے کہ معاہدے میں طے پایا تھا کہ دارلقضاء کا قیام مالاکنڈ ڈویژن میں فوجی آپریشن مکمل طور پر رک جانے کے بعد معاہدے کے فریقین کی باہمی رضامندی سے عمل میں آئے گا اور حکومت نے نوٹیفکفشن جاری کرتے وقت معاہدے کے فریقوں کو اعتماد میں نہیں لیا۔
حکومت کا موقف ہے کہ دارالقضاء کے قیام کے بعد یہ ممکن ہوجائے گا کہ علاقے میں متوازی حکومت نہ بن سکے اور حکومتِ پاکستان کے ان علاقوں میں اپنی عمل داری قائم رکھ سکے۔
دوسری جانب پاکستانی افواج نے بنیر کے علاقے میں اپنی مسلّح کارروائی جاری رکھی ہوئی ہے اور متعدد عسکریت پسندوں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔ واضح رہے کہ نظامِ عدل معاہدے کی رو سے طالبان پر ہتھیار ڈالنے کی شرط عائد کی گئی تھی تاہم معاہدے کے بعد طالبان نے سوات کے علاوہ مالاکنڈ ڈویژن میں بنیر اور دیگر علاقوں کی طرف پیش قدمی شروع کردی تھی جس کو پاکستانی فوج نے آپریشن کے زریعے روک دیا تھا۔ ان علاقوں میں شدّت پسندوں اور سیکیورٹی فورسز کے درمیان لڑائی اب بھی جاری ہے۔
بنیر کے علاقے میں بڑے پیمانے پر عام شہریوں کی ہلاکتوں اور ان کی املاک کے نقصان کے علاوہ نقل مکانی کی اطلاعات بھی ہیں۔ عام شہریوں کا کہنا ہے کہ سیکیورٹی فورسز اور عسکریت پسندوں کے درمیان اس لڑائی میں زیادہ تر ہلاکتیں عام شہریوں کی ہی ہورہی ہیں۔ اطلاعات کے مطابق ضلعے سے کم از کم پچاس ہزار افراد نقل مکانی پر مجبور ہو چکے ہیں۔
امریکہ اور مغربی ممالک نے نظامِ عدل معاہدے پر کھلے الفاظ میں تنقید کی ہے اور امریکی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ وہ مالاکنڈ ڈویژن میں طالبان کی پیش قدمی اور پاکستانی حکومت کی فوجی کارروائی کا بغور معائنہ کر رہی ہے اور دو ہفتے بعد وہ اس حوالے سے کوئی رائے قائم کرے گی۔