خلیجی ریاستوں میں ایک کرنسی کا تصور
19 ستمبر 2008خلیجی ریاستوں میں تعاون کے کئی سلسلے جاری ہیں جو انسانی فلاح و بہبودکے ساتھ ساتھ اِن چھ ریاستوں کے درمیان بہتر انتظامی رابطوں پر پھیلے ہیں۔ اِن میں ایک انتظامی رابطہ سن دو ہزار دس تک ایک مشترکہ کرنسی کا شروع کرنا ہے۔
خلیجی ریاستوں کے وزرائے مالیات و اقتصادیات اِس سلسلے میں اپنی سی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں لیکن عالمی مالیاتی فنڈ کے مینیجنگ ڈائریکٹر ڈومنیک سٹراس کہان نے ایسے خدشات کا اظہار کیا ہے کہ خلیجی ریاستوں میں ایک کرنسی کا نفاذ سن دو ہزار دس تک مشکل دکھائی دے رہا ہے کیونکہ کچھ میں افراط زر کی شرح بہت زیادہ ہے۔ اِن میں قطر اور متحدہ عرب امارت کا نام لیا جا رہا ہے۔ خلیجی ملکوں کے وزرائے مالیات نے ایک کرنسی کے نظام الاوقات کا مسودہ منظور تو کیا ہے مگر اُس کی حتمی توثیق تمام ریاستوں کے سربراہان کی جانب سے ہونا باقی ہے۔ ایک کرنسی کے ساتھ ساتھ اِن چھ ریاستوں کا ایک مشترکہ بازار حصص یا سٹاک مارکیٹ بھی ہو گی۔
گلف سنٹرل بینک کے نظریئے پر کام جاری ہے اور توقع کی جا رہی ہے کہ اگلے کچھ عرصے میں یہ کام شروع کر دے گا۔ خلیجی ریاستوں کے مالیاتی وزرا کی جدہ منعقدہ حالیہ میٹنگ میں بتایا گیا ہے کہ ایک کرنسی کے شروع کرنے پر پچاسی فی صد کام مکمل ہو گیا ہے اور سن دو ہزار نو میں ایک مرکزی بینک اپنا کام شروع کردے گا جس کا پہلا فرض چھ ریاستوں میں ایک کرنسی کو متعارف کروانا ہو گا۔
گلف علاقے میں ایک کرنسی کے تصور کو عالمی مالیاتی ادارے یا انٹر نیشنل مانٹری فنڈ کی منظوری حاصل ہو گئی ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ مشرق وسطیٰ میں ایک کرنسی کے پرانے خیال کو عملی صورت کی جانب یہ ایک انتہائی اہم قدم ہو گا۔ ابتداء میں یہ کرنسی چھ خلیجی ملکوں سعودی عرب، قطر، بحرین، کویت، اومان اور متحدہ عرب امارات شامل ہیں۔ اگر سن دو ہزار دس میں ایک کرنسی کا استعمال شروع ہو جاتا ہے تو گلف ریاستوں کا مالیاتی حجم تین سو پینتیس بلین ڈالر سے زائد ہو گا جو عالمی اقتصاد میں انتہائی اہمیت کا حامل ہو گا اور اقتصادی ماہرین کے خیال میں یہ نئی کرنسی بھی یورو کی طرح اہم اور مضبوط بنیادوں پر استوار ہو گی۔ تیل کی دولت سے مالا مال گلف ریاستوں اقتصادی ہم آہنگی پیدا کرنے کا عمل شروع ہو گیا ہے اور پہلی سطح پر یکساں کسٹم قوانین کا متعارف کروایا جانا ہے۔
دوسری جانب عالمی مالیاتی بحران کے تناظر میں خلیجی ماہرین اقتصادیات کا خیال ہے کہ ایک کرنسی کے نفاذ کو تین سال کے لئے مؤخر کردینا چاہئے کیونکہ اِس دوران عالمی اقتصادی منظر نامے پر جو تبدیلیاں وقوع پذیر ہونی ہیں وہ ہو چکی ہوں گی۔