1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

حکمت یار اور کابل حکومت میں امن معاہده طے پاگیا

شادی خان سیف، کابل18 مئی 2016

افغان حکومت اور سابق وزیر اعظم گلبدین حکمت یار کی جماعت حزب اسلامی کے ساتھ امن ڈیل طے پا گئی ہے۔ فریقین نے اپنی نوعیت کے اِس امن معاہدے پر دستخط کر دیے ہیں۔ سیاسی حلقوں نے اسے اہم پیشرفت قرار دیا ہے۔

https://p.dw.com/p/1Iq5d
سابق وزیر اعظم گلبدین حکمت یارتصویر: picture-alliance/dpa/AFP/A. Kenare

یه امن معاہده عین ایسے موقع پر طے پایا ہے، جب کابل حکومت نے اسلام آباد منعقده چار فریقی رابطه گروپ کے اجلاس میں بطور احتجاج اپنا نائب وزیر خارجه کو روانه نہیں کیا بلکه اسلام آباد مقيم سفير پر ہی اکتفا کيا ہے۔ کابل حکومت کا اصرار ہے که پاکستان اس گروپ کے سابقه اجلاس میں کیے گئے وعدوں کے مطابق اپنے ہاں مقیم طالبان دہشتگردوں کو نشانه بنائے اور انہیں افغانستان مخالف دہشت گردی کی پلاننگ کا بھی موقع نہ دے۔

افغانستان کے مذہبی حلقوں میں قدر کی نگاه سے دیکھے جانے والے پیر سید احمد گیلانی، جوکه شوراٴ امن کے سربراه ہیں، نے حکومت اور گلبدین کی جماعت کے مابین طے پانے والے معاہدے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ گلبدین کی جماعت ایک عرصے تک طالبان اور القاعده کے شانه بشانه افغان حکومت اور غیر ملکی دستوں کے خلاف لڑتی رہی ہے مگر اب اس معاہدے کے بعد حزب اسلامی نے مسلح کارروائیاں ترک کرنے کا وعده کیا ہے۔ ذرائع کے مطابق اس کثیر النکاتی امن معاہدے میں فریقن کے مابین طے پایا ہے که حزب اسلامی تمام مسلح گروہوں سے رابطے ترک کرے گی اور افغانستان کے آئین کو مانتے ہوئے مرکزی سیاسی دهارے میں شمولیت اختیار کرے گی۔

ایک اہم نکته، جو ابهی تک بالخصوص طالبان اور کابل حکومت کے مابین اس طرز کے امن معاہدوں کی راه میں رکاوٹ بنا ہوا ہے، وه افغانستان میں غیر ملکی دستوں کی موجودگی ہے۔ حزب اسلامی اور افغان حکومت کے مابین طے شده معاہدے میں اس نکتے کے حوالے سے شامل کیا گیا ہے که فریقین غیر ملکی دستوں کے انخلا کو ممکن بنانے کے لیے قانون کے دائرے میں رہتے هوئے کوششیں کریں گے۔

Afghanistan Gespräche High Peace Council & Gulbuddin Hekmatyar
حزبِ اسلامی کا وفد اور افغان اعلیٰ امن کونسل کے اراکینتصویر: picture-alliance/Anadolu Agency/H. Sabawoon

تجزیه نگار عتیق الرحمان کے بقول حزب اسلامی اور کابل حکومت کے مابین طے پانے والا یه امن معاہده خاصی اہم پیشرفت ہے۔ ان کے مطابق اس معاہدےکے کئی پہلو ہیں اور سب سے بڑھ کر یه افغانستان کی سیاسی تاریخ میں اپنی نوعیت کا ایک نایاب واقعه ہے که ایک متحارب گروه کو حکومت نے اس پرامن طریقے سے ایک مرتبه پهر عملی سیاسی کردار کی اجازت دی ہے۔ عتیق الرحمان کا خیال ہے کہ اگر یه معاہده عملی طور پر کامیاب ہو گیا اور حزب اسلامی سیاسی دهارے میں شامل ہوگئی تو طالبان سمیت دوسرے باغی گروہوں میں بهی اعتماد پیدا هوگا اور وہ بھی خون خرابے کے برعکس پر امن طریقے پر عمل کریں۔

معاہدے پر دستخط کرنے کے بعد افغان چیف ایگزیکٹو کے دفتر کے نائب انجینئر محمد خان نے حکمت یار کی رہائش بابت لاعلمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا که امید ہے ان کے ساتهی اس معاہدے کو عملی جامه پہنانے میں تعاون کریں گے۔ محمد خان کے بقول اس معاہدے کے عوض حکمت یار کو مراعات دینے کا وعده نہیں کیا گیا بلکه حزب اسلامی کا اصرار فقط یہ ہے کہ اُس کے رہنماؤں کے نام اقوام متحده کی بلیک لسٹ سے نکال دیے جائیں۔

افغانستان کی قومی اتحاد کی حکومت کے چیف ایگزیکٹو عبدالله عبدالله نے بهی اس ڈیل کی اپنی حمایت کا اعلان کیا ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ عبداللہ عبداللہ، گلبدین کےسابق حریف احمد شاه مسعود کی جماعت اسلامی سے وابسته ہیں۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں