حمص میں دوہرا کار بم حملہ، 46 ہلاک
21 فروری 2016شام کی صورتحال پر نظر رکھنے والی تنظیم سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کے مطابق الزھرا ڈسٹرکٹ میں ہونے والے ان دھماکوں کے نتیجے میں 100 سے زائد افراد زخمی بھی ہوئے ہیں۔ شام کے سرکاری ٹیلی وژن نے حمص کے صوبائی گورنر طلال برازئی کے حوالے سے بتایا ہے کہ ہلاکتوں کی تعداد 32 ہے۔
حمص کا تقریباﹰ تمام صوبہ شامی حکومت کے کنٹرول میں ہے اور اکثر بم حملوں کا نشانہ بنتا رہتا ہے۔ الزھرا کے علاقے میں کئی مرتبہ بم حملے ہو چکے ہیں۔ گزشتہ ماہ اسی علاقے میں ہونے والے دوہرے خودکش حملے کے نتیجے میں 22 افراد ہلاک ہوئے اور اس کی ذمہ داری دہشت گرد گروپ اسلامک اسٹیٹ نے قبول کی تھی۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق الزھرا کے علاقے کے زیادہ تر رہائشی علوی ہیں۔ شامی صدر بشار الاسد بھی علوی ہی ہیں۔ اے ایف پی کے مطابق ہلاک ہونے والے زیادہ تر افراد عام شہری ہیں۔ حمص میں ہونے والے خونریز ترین حملوں میں اکتوبر 2014ء میں ایک اسکول میں ہونے والا بم دھماکا بھی تھا۔ ضلع اکرمہ میں ہونے والے اس دھماکے کے نتیجے میں 48 بچے اور چار دیگر افراد ہلاک ہوئے تھے۔ حمص کو کبھی شام میں شروع ہونے والی تحریک کا گڑھ قرار دیا جاتا تھا جس کا آغاز مارچ 2011ء میں حکومت مخالف مظاہروں سے ہوا۔ تاہم گزشتہ کئی برسوں کی خانہ جنگی کے بعد یہ صوبہ اور زیادہ تر حکومتی فورسز کے کنٹرول میں ہے۔
شام میں یہ خونریز بم دھماکے ایک ایسے وقت پر کیے گئے ہیں جب اقوام متحدہ کی سربراہی میں عالمی برادری اس کوشش میں ہے کہ شام کی متحارب قوتوں کو مذاکرات کی میز پر لایا جائے تاکہ گزشتہ قریب پانچ برس سے جاری خانہ جنگی کا خاتمہ ہو سکے۔
عالمی طاقتوں نے گزشتہ ہفتے تجویز دی تھی کہ شام میں ’سیز فائر‘ کیا جائے اور شام کے ان علاقوں کی عوام تک انسانی بنیادوں پر امداد فراہم کی جائے جو جنگ کے باعث محاصرے میں آئے ہوئے تھے۔ تاکہ شام میں قیام امن کے لیے مذاکرات کی راہ ہموار ہو سکے۔
رواں ماہ کے آغاز میں جنیوا میں امن مذاکرات کا آغاز کیا گیا تھا تاہم کسی فوری پیشرفت کے بغیر انہیں 25 فروری تک کے لیے معطل کر دیا گیا تھا۔ تاہم شام کے اقوام متحدہ کے نمائندہ خصوصی پہلے ہی یہ اقرار کر چکے ہیں کہ اس تاریخ پر مذاکرات کی بحالی ممکن نہیں ہے۔