حماس کے ’سرِ عام‘ سزائے موت دینے کے فیصلے پر تحفظات
26 مئی 2016حماس کے اٹارنی جنرل اسمٰعیل جبار نے جمعرات کو صحافیوں کو بتایا کہ پانچ افراد کی سزاؤں پر اگلے ہفتے کسی بھی دن عمل درآمد کر دیا جائے گا جبکہ بقیہ آٹھ کو رمضان کے بعد یعنی جولائی میں سزا دی جائے گی۔ انہوں نے مزید بتایا کہ یہ افراد معصوم شہریوں کے قتل میں ملوث ہیں، ’’سماجی انصاف کے تقاضے پورے کرنے کے لیے ان سزاؤں پر جلد از جلد عمل درآمد کیا جائے گا۔‘‘ انہوں نے واضح کیا کہ یہ سب کچھ سرِ عام نہیں بلکہ ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کی موجودگی میں کیا جائے گا۔
تاہم اٹارنی جنرل اسمعیل جبار نے یہ نہیں بتایا کہ آیا ان مجرموں کو پھانسیاں دی جائیں گی یا پھر کسی اور انداز میں موت کے گھاٹ اتارا جائے گا۔ غزہ میں عام طور پر فائرنگ کر کے سزائے موت دی جاتی ہے۔
حماس کے مطابق سرعام پھانسیاں دینے کا مقصد جرائم کی روک تھام ہے۔ اس سے قبل فلسطینی علاقوں میں سزائے موت پر عمل درآمد کے پروانوں پر صرف صدر محمود عباس کو ہی دستخط کرنے کا اختیار تھا۔ فلسطینی انتظامیہ نے اس فیصلے کو ایک غیر قانونی اقدام قرار دیا ہے۔ اس طرح حماس اور غرب اردن پر حکومت کرنے والے محمود عباس کے مابین تنازعہ مزید شدت اختیار کر سکتا ہے۔
غزہ اور غرب اردن 2007ء میں اس وقت ایک دوسرے سے الگ ہوئے تھے، جب عام انتخابات میں حماس کامیاب ہوئی تھی تاہم اقتدار اسے نہیں سونپا گیا تھا، جس کے بعد حماس نے اقتدار پر زبردستی قبضہ کر لیا تھا۔ اقوام متحدہ نے بھی حماس کی جانب سے یوں سزائے موت دینے کے فیصلے پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ حماس غزہ میں واحد جماعت ہے اور یہ کسی بھی وقت کوئی بھی قانون اپنی مرضی سے تبدیل کر سکتی ہے۔