1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جواہر لال نہرو یونیورسٹی، تنازعہ بڑھتا ہوا

جاوید اختر، نئی دہلی 18 فروری 2016

بھارت میں جواہر لال نہرو یونیورسٹی تنازعہ مزید شدت اختیار کرتا جارہا ہے اور اس کے ختم ہونے کے آثار دکھائی نہیں دے رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/1HxRq
تصویر: Reuters/A. Mukherjee

نئی دہلی میں واقع عالمی شہرت یافتہ تعلیمی ادارہ جواہر لال نہرو یونیورسٹی کی اسٹوڈنٹس یونین کے صدر کنہیا کمارکی مبینہ بغاوت کے الزام میں گرفتاری کی مخالفت اور حق میں آج بھی قومی دارالحکومت سمیت بھارت کے تمام بڑے شہروں میں زبردست مظاہرے ہوئے۔ کئی مقامات پر مظاہرین کے درمیان تصادم کے واقعات پیش آئے۔ پولیس کو صورت حال پر قابو پانے کے لیے لاٹھی چارج کرنا پڑا اور متعدد طلبہ کو حراست میں لے لیا گیا۔ حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی اور اس کی اسٹوڈنٹ وِنگ اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد نے کل جمعہ 19 فروری کو ملک بھر میں ’جن سوابھیمان‘ یا عوامی خود داری کے نام سے ریلی نکالنے کی اپیل کی ہے۔

سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ کنہیا کمار کے ضمانت کی عرضی پر وہ کل جمعہ کو سماعت کرے گی۔گو کنہیا کمار کا معاملہ نچلی عدالت پٹیالہ ہاؤس کورٹ میں ہے لیکن گزشتہ دو مرتبہ عدالت میں پیشی کے دوران وکیلوں کی طرف سے ان پر حملہ اور وہاں موجود صحافیوں کوبھی تشدد کا نشانہ بنائے جانے کے بعدعدالت عظمی نے اس معاملے کی سماعت اپنے یہاں کرنے کا فیصلہ کیا۔

کنہیا کمار، جنہیں دو مارچ تک کے لیے عدالتی تحویل میں بدنام زمانہ تہاڑ جیل بھیج دیا گیا ہے، نے اپنی عرضی میں کہا کہ ان کی جان کو خطر ہ لاحق ہے۔
قبل ازیں آج اپوزیشن کانگریس کے نائب صدر راہول گاندھی کی قیادت میں پارٹی کے ایک وفد نے صدر پرنب مکھرجی سے ملاقات کی اور انہیں ایک میمورنڈم پیش کیا، جس میں جواہر لال نہرو یونیورسٹی تنازعہ اور ملک کے مختلف حصوں میں طلبہ کو نشانہ بنائے جانے کے واقعات کا ذکر ہے۔ راہول گاندھی نے بعد میں میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ بی جے پی حکومت ملک بھر میں طلبہ کی آواز کو کچلنے کی کوشش کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملک پر کٹر ہندو قوم پرستی کے نظریات تھوپنے کی کوشش کی جارہی ہے اور صحافیوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔



ادھر دہلی کے وزیر اعلٰی اروند کیجریوال نے بھی صدر مکھرجی سے ملاقات کی اور قومی دارالحکومت کی موجودہ صورت حال پر انہیں اپنی تشویش سے آگاہ کیا۔ انہوں نے نریندر مودی حکومت پر طنز کرتے ہوئے کہا، ’’جب یہ حکومت ملک دشمن نعرہ لگانے والے چار، پانچ طلبہ کو گرفتار نہیں کر پا رہی ہے تو پٹھان کوٹ ایئربیس پر حملہ کرنے والوں کو کیسے پکڑ پائے گی۔‘‘ خیال رہے کہ دہلی کو مکمل صوبہ کا درجہ حاصل نہیں ہے اور پولیس اور سکیورٹی مرکزی وزارت داخلہ کے ہاتھوں میں ہے۔

معروف سیاسی تجزیہ نگار آکار پٹیل کا کہنا ہے، ’’جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے واقعات، حیدرآباد سنٹرل یونیورسٹی میں ہونے والی سرگرمیوں کے سلسلے کی ہی کڑی معلوم ہوتے ہیں جہاں طلبہ نے 1993 کے سلسلہ وار ممبئی بم دھماکوں کے جرم میں یعقوب میمن کی پھانسی کے خلاف احتجاج کیا تھا۔ ان طلبہ کے خلاف بی جے پی حکومت نے سخت کارروائی کی اور اسی کا نتیجہ تھا کہ پورے باب کا اختتام یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی کے طالب علم روہت ویمولا کی خودکشی کے ساتھ ہوا۔‘‘

کنہیا کمار نے اپنی درخواست میں کہا ہے کہ ان کی جان کو خطر ہ لاحق ہے
کنہیا کمار نے اپنی درخواست میں کہا ہے کہ ان کی جان کو خطر ہ لاحق ہےتصویر: Reuters

جواہر لال نہرو یونیورسٹی کا یہ تنازعہ نو فروری کو اس وقت شروع ہوا جب بائیں بازو کی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے طلبہ نے پارلیمان پر حملے کے الزام میں پھانسی کی سزا پانے والے افضل گرو کی یاد میں ایک تقریب کا انعقادکیا۔ دہلی سے بی جے پی کے رکن پارلیمان مہیش گری نے پولیس میں شکایت درج کرائی کہ مذکورہ تقریب میں طلبہ نے بھارت کے خلاف اور پاکستان اور کشمیر کے حق میں نعرے لگائے تھے۔ انہوں نے وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ اور انسانی وسائل کے فروغ کی وزیر اسمرتی ایرانی کو بھی اس حوالے سے خط لکھا۔ دس فروری کو ایک نیوز چینل نے ویڈیو نشر کیا جس میں بعض طلبہ نعرے بازی کرتے ہوئے دیکھے جارہے ہیں۔گو کنہیا کمار نے اس الزام کی تردید کی اور انٹلی جنس بیورو نے بھی اس بیان کی تائید کی ہے، تاہم دہلی کے پولیس کمشنر بھیم سین بسّی نے کنہیا کے خلاف’خاطر خواہ‘ ثبوت موجود ہونے کادعویٰ کیا اوردہلی پولیس نے کنہیا سمیت آٹھ طلبہ کے خلاف ملک سے بغاوت کے الزام میں مقدمہ درج کرلیا۔

بہار کے بیگو سرائے ضلع کے رہنے والے 28 سالہ کنہیا کمار کو دہلی پولیس نے 12 فروری کوبغاوت کے الزام میں یونیورسٹی سے گرفتار کیا۔ جب کہ دیگر نامزد طلبہ کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے جا رہے ہیں ۔کنہیا کوپہلی مرتبہ تین دن اور دوسری مرتبہ دو دن کے لیے پولیس ریمانڈ میں دیا گیا جب کہ تیسری مرتبہ دو مارچ تک کے لیے عدالتی تحویل میں تہاڑ جیل بھیج دیاگیا۔

وزارت داخلہ کے ذرائع کے مطابق کنہیا کے خلاف الزام کی تائید میں اب تک کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ملا ہے اس لیے بغاوت کا الزام واپس لیا جاسکتا ہے لیکن پولیس کمشنر بسّی کا کہنا ہے کہ ابھی وہ کلین چٹ نہیں دے سکتے البتہ دہلی پولیس اس کی ضمانت کی مخالفت نہیں کرے گی۔

اس دوران تنازعے نے اس وقت ایک دلچسپ موڑ لے لیا جب وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے کہا کہ جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں نعرے بازی کرنے والے طلبہ کو لشکر طیبہ اور ممبئی حملوں کے سلسلے میں بھارت کو مطلوب حافظ محمد سعید کی حمایت حاصل ہے۔ دہلی پولیس نے بھی حافظ سعید کا ایک مبینہ ٹوئیٹ جاری کر کے اس الزام کی تائید کی تاہم بعد میں یہ سب کچھ فرضی ثابت ہوا۔

اس پورے معاملے سے نمٹنے کے طریقہ کار پردہلی پولیس اور مودی حکومت کو زبردست تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ماہرین قانون یہ سوال پوچھ رہے ہیں کہ جب یونیورسٹی انتظامیہ نے واقعہ کی انکوائری کا حکم د ے دیا تھا تو پولیس کو کنہیا کمار کو گرفتا رکرنے میں اتنی جلد بازی کی کیا ضرورت تھی۔ معروف ماہرقانون سولی سوراب جی کا کہنا ہے کہ صرف بھارت مخالف نعرے لگانے کی بنیاد پر کسی کے خلاف غداری کا مقدمہ درج نہیں کیا جاسکتا۔ سپریم کورٹ نے اپنے بہت سے فیصلوں میں واضح کیا ہے کہ اپنے خیالات کے اظہار کے لیے، یا کسی کی تائید میں نعرہ لگانے پر اسے غدار نہیں قرار دیا جاسکتا۔ اسی باعث کہا جا رہا ہے کہ دہلی پولیس نے غداری کا جو مقدمہ دائر کیا ہے وہ ملک کی کسی عدالت میں ٹک نہیں سکتا۔

دوسری طرف کنہیا کی نچلی عدالت میں پیشی کے دوران بی جے پی حامی وکیلوں کے ایک گروپ نے وہاں موجود صحافیوں کو جس بری طرح مارا پیٹا اور ان کے کیمرے اور موبائل توڑ ڈالے اس پر سپریم کورٹ اور بار کونسل آف انڈیا نے سخت مؤقف اختیار کیا ہے۔

کنہا کمار کی رہائی کے لیے طلبہ بڑے پیمانے پر مظاہرے کر رہے ہیں
کنہا کمار کی رہائی کے لیے طلبہ بڑے پیمانے پر مظاہرے کر رہے ہیںتصویر: picture-alliance/AP Photo/T. Topgyal

بار کونسل آف انڈیا کے چیئرمین منن کمار مشرا نے کہاکہ اس واقعہ میں ملوث وکیلوں کے لائسنس منسوخ کردیے جائیں گے۔ خیال رہے کہ پٹیالہ ہاؤس کورٹ، سپریم کورٹ سے صرف چند گز کے فاصلے پر ہے۔ جب سپریم کورٹ نے وہاں کی صورت حال کا جائزہ لینے کے لیے پانچ سینیئر وکیلوں کی ایک ٹیم کوبھیجا تو انہیں بھی بی جے پی کے حامی وکیلوں کے عتاب کا شکار ہونا پڑا۔ ملک کے سینیئر ترین وکیل راجیو دھون نے کہا کہ انہیں ماں بہن کی گالیاں تک دی گئیں اور پاکستان کا ایجنٹ کہا گیا۔ وزیر قانون سدانند گوڑا نے وکیلوں کی اس حرکت کی مذمت کی ہے۔

اسی دوران افضل گرو کی برسی کے موقع پر یہاں پریس کلب آف انڈیا میں ایک پروگرام منعقد کرنے کے الزام میں دہلی یونیورسٹی کے پروفیسر ایس اے آر گیلانی کو بھی پولیس نے گرفتار کرلیا ہے۔ انہیں 2001ء میں بھارتی پارلیمان پر ہوئے حملے کے سلسلے میں بھی گرفتار کیا گیا تھا لیکن شواہد کی عدم موجودگی میں عدالت نے انہیں باعزت بری کردیا تھا۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل کے علاوہ کیمبرج، ہارورڈ اور کولمبیا یونیورسٹی سمیت دنیا بھر کے متعدد معروف تعلیمی اداروں سے وابستہ چار سو سے زائد افراد اور اہم شخصیات نے ایک اپیل جاری کر کے کنہیا کمار اور گیلانی کو رہا کرنے کی اپیل کی ہے۔

خیال رہے کہ نوآبادیاتی دور کے بغاوت سے متعلق قانون پر نظر ثانی کے لیے مسلسل آوازیں اٹھتی رہی ہیں۔ معروف ادیبہ ارون دھتی رائے نے موجودہ تنازعے کے حوالے سے ایک مضمون میں بھارت کے پہلے وزیر اعظم جواہر لال نہرو کے بعض خطوط اور تقریروں کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ مذکورہ قانون کے تحت تو نہرو کے خلاف بھی ملک سے بغاوت کا مقدمہ چلایا جاسکتا ہے۔