جنگ کے باعث جرمن فوجی ذہنی دباؤ کا شکار
6 فروری 2009جسمانی طور پر صحت مند ہونے کے باوجود یہ فوجی کئی طرح کے ذہنی و نفسیاتی مسائل اور صدماتی کیفیت کا شکار ہیں۔
جون 2003 میں ایک نوجوان جرمن فوجی Christopher Plodowski اپنے ساتھیوں کے ہمراہ ایک فوجی بس میں بیٹھا ہوا تھا۔ وہ خوش تھا کہ افغانستان میں اس کی ڈیوٹی مکمل ہو چکی ہے اور اب وہ عنقریب واپس جرمنی روانہ ہو جائے گا۔ اس نے نہیں دیکھا کہ کب ایک ٹیکسی آئی اور بس سے ٹکرا گئی۔ ایک خوفناک دھماکہ ہوا اور Plodowski اچھل کر بس کی فرش پر جا گرا۔
اس کا کہنا ہے’’ یہ میری زندگی کا سب سے خوفناک واقعہ تھا۔ ہر طرف کٹے پھٹے انسانی اعضاء، چیخ وپکار، خون میں لت پت جسم، ہر طرف بارود کی بو۔ بس میں دھواں ہی دھواں۔ ہم نے دو۔ تین زخمی ساتھیوں کو گاڑی سے نکالا۔ ایک ساتھی نے مجھے توجہ دلائی کہ میں بھی زخمی ہوں۔ میں نے دیکھا کہ میرے دونوں بازو بری طرح زخمی ہو چکے تھے۔‘‘
آج چھ سال بعد بھی Plodowski ان بھیانک مناظر کو ذہن سے جھٹک نہیں سکتے ہیں۔
ایک اور جرمن فوجی Dornseif بھی اسی بس میں سوار تھے۔وہ بھی بری طرح زخمی ہو گئے تھے۔ اگرچہ جسمانی لحاظ سے اب وہ صحت مند ہو چکے ہیں مگر صدماتی کیفیات ابھی تک ان کےدماغ پر چھائی ہیں۔
وہ کہتے ہیں ’’ میں اپنی آنکھیں نہیں کھول سکتا۔ میں وہ گرم گرم خون اب بھی محسوس کر رہا ہوں جو اس وقت میرے چہرے پر سے بہہ رہا تھا۔ ساتھیوں کی چیخ و پکار۔ آج بھی اگر مجھے کوئی چیخ سنائی دیتی ہے تو میں خود کو فورا اس بس میں موجود پاتا ہوں۔‘‘
سن2007 میں افغانستان سے واپس لوٹنے والےصدماتی کیفیت کے شکار ایسے جرمن فوجیوں کی تعداد 149 تھی جب کہ سن 2008 میں یہ تعداد 245 تک پہنچ گئی تھی۔ افغانستان کی جنگ سے واپس آنے کے باوجود ان فوجیوں کے ذہن میں جنگ جاری ہے۔ ہرروز، ہر لمحہ، ہر آن