1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جنوبی کوریا: کم دے جُنگ کی آخری رسومات، ہزاروں افراد کی شرکت

23 اگست 2009

سیول میں جنوبی کوریا کے امن کے نوبل انعام یافتہ سابق صدر آنجہانی کم دے جونگ کی آخری رسومات ادا کی گئیں۔ ان رسومات میں تقریبا 20 ہزار افراد نے شرکت کی۔

https://p.dw.com/p/JGes
کم دے جنگ کی آخری رسومات میں ایک سرکاری اہلکار سلامی پیش کرتے ہوئےتصویر: picture alliance / landov

دریں اثنا سیول کا دورہ کرنے والے پیونگ یانگ کے ایک وفد نے آج اتوار کو صدر لی میونگ بک سے ملاقات کی۔ بلیو ہاؤس کہلانے والے صدارتی محل میں ہونے والی یہ ملاقات 30 منٹ تک جاری رہی۔

جنوبی کوریائی صدر کے ڈیڑھ سالہ دورِ صدارت میں اپنی نوعیت کی یہ پہلی ملاقات تھی۔ بتایا گیا ہے کہ شمالی کوریائی وفد نے جنوبی کوریائی صدر لی کو اپنے علیل حکمران کِم یونگ اِل کا پیغام بھی دیا۔ سیول میں صدارتی ترجمان کا کہنا ہے کہ یہ پیغام دونوں ممالک کے باہمی تعلقات میں پیش رفت سے متعلق تھا۔ تاہم انہوں نے مذکورہ پیغام کی تفصیلات بتانے سے گریز کیا۔

جنوبی کوریا کے صدارتی ترجمان کا کہنا ہے کہ شمالی کوریا کے وفد سے ملاقات میں صدر لی میونگ بک نے پیونگ یانگ حکومت کے لئے اپنی حکومت کی پالیسی کی وضاحت کی۔ انہوں نے بتایا کہ یہ ملاقات خوشگوار ماحول میں ہوئی۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ فریقین نیک نیتی سے مذاکرات کے ذریعے باہمی تعلقات میں حائل مسائل کا حل تلاش کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ تعلقات بہتر نہ ہوسکیں۔

Nordkorea Südkorea Hyun Kim Delegation am Tisch
شمالی و جنوبی کوریا کے رہنماؤں کے درمیان ملاقاتتصویر: ap

قبل ازیں ہفتہ کو سیول میں دونوں ممالک کے سینئر وزراء کی ملاقات ہوئی، جو دونوں ریاستوں کے درمیان گزشتہ دو برسوں میں پہلا اعلیٰ سطحی رابطہ تھا۔ شمالی کوریا کا یہ وفد جنوبی کوریا کے سابق صدر کِم دے جُنگ کی تدفین میں شرکت کے لئے سیول کے دورے پر ہے۔ کِم دے جُنگ گزشتہ ہفتے انتقال کر گئے تھے، ان کی آخری رسومات بھی آج اتوار کو ہو رہی ہیں۔

دونوں کوریائی ریاستوں کے تعلقات میں گزشتہ ایک برس کے دوران کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے۔ تاہم اس تازہ پیش رفت سے دونوں ریاستوں کے رویوں میں نرمی کی توقع ظاہر کی جا رہی ہے۔

Südkorea Präsident Kim Dae Jung
صدر کِم دے جُنگ کے انتقال پر جنوبی کوریا کی ایک غمزدہ شہریتصویر: AP

سیول اور پیونگ یانگ کے مابین تعلقات میں سرد مہری اُس وقت آئی تھی، جب جنوبی کوریا کے قدامت پسند رہنما نے شمال کے لئے امداد معطل کر دی تھی اور اس کے لئے اقتصادی امداد کی پالیسی کو پیونگ یانگ کے جوہری منصوبے کی منسوخی سے منسلک کر دیا تھا۔

شمالی کوریا کی جانب سے رواں برس کے آغاز پر جوہری اور میزائل تجربوں کے بعد جنوب کے ساتھ کشیدگی میں مزید اضافہ ہوا تھا۔ تاہم جنوبی کوریا کے سابق صدر کِم دے جُنگ کی وفات کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات میں بہتری کے آثار دکھائی دے رہے ہیں۔ جُنگ کی وفات کے فورا بعد شمالی کوریا نے جنوبی کوریا کے ساتھ ملنے والی اپنی سرحد بھی کھول دی تھی تاکہ دونوں جانب آباد خاندانوں کو ملاقات کا موقع مل سکے۔

رپورٹ: ندیم گِل

ادارت: امجد علی