جنسی زیادتی کا شکار لڑکا دو سال سے انصاف کی تلاش میں
9 اپریل 2016بارہویں جماعت کا طالب علم زاہد اللہ دو برس پہلے پیش آنے والے واقعے کو یاد کرتے ہوئے کہتا ہے، ’’وہ چھ لوگ تھے اور میرے ساتھ دو دن تک جنسی زیادتی کرتے رہے۔ میں بے ہوش ہوگیا تھا، جب میری آنکھ کھلی تو میں ہسپتال میں تھا۔‘‘
زاہد اللہ کو مبینہ طور پر جنوری 2014ء کو کالج سے گھر واپسی کے دوران کچھ لوگوں نے اغوا کیا۔ اس بارے میں زاہد اللہ کا کہنا ہے، ’’جب مجھے ہوش آیا تو سب سے پہلے میں نے یہ سارا واقعہ اپنے والد کو بتایا، جس کے بعد میرے والد نے پولیس میں رپورٹ درج کروانے کا فیصلہ کیا۔‘‘
زاہد اللہ کے مطابق ملزمان کے خلاف ایف آئی آر درج کروانے کے بعد ملزمان نے اسے اور اس کے گھر والوں کو باقاعدہ طور پر نقصان پہنچانے کی دھمکیاں دیں جبکہ پولیس میں بھی کیس کو ختم کروانے کے لیے اپنے اثر و رسوخ کا بھرپور استعمال کیا۔
زاہد اللہ کے والد عزیزاللہ خان کا ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ انہوں نے بہت مجبوری کے تحت اپنے بیٹے کو میڈیا کے سامنے لانے کا فیصلہ کیا ہے، ’’پہلے تو ہمیں انہوں نے مختلف طریقوں سے منانے اور کیس کو واپس لینے کے لیے آمادہ کرنے کی کوشش کی لیکن جب ان کا ایک بھی حربہ کامیاب نہ ہوا تو انہوں نے ہمیں قتل کرنے کے منصوبے بنانا شروع کر دیے۔‘‘
عزیز اللہ قانون نافذ کرنے والے اداروں سے بھی نالاں ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کو انصاف نہیں سکا بلکہ ان کا کیس دو سال تک مختلف بااثر شخصیات کی وجہ سے تاخیر کا شکار رہا جبکہ آخر میں ملزمان کے حق میں خارج کر دیا گیا۔ اب وہ اس فیصلے کے خلاف اعلیٰ عدالت سے رجوع کر چکے ہیں۔
پشاور کے ایک اعلیٰ پولیس اہلکار نے اپنا نام مخفی رکھنے کی شرط پر بتایا کہ بچوں کے ساتھ جنسی بدسلوکی کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے لیکن لوگ بدنامی کے خوف سے ایسے واقعات رپورٹ نہیں کرواتے۔ وہ بتاتے ہیں کہ اگر کوئی ایک آدھ کیس رپورٹ بھی ہو جائے تو پولیس اس قسم کے کیسز کو پہلے مرحلے میں ہی ختم کروانے کی کوشش کرتی ہے اور فریقین کو صلح اور درمیانی راستہ نکالنے کا مشورہ دیا جاتا ہے۔
پشاور یونیورسٹی کے شعبہ پیس اینڈ کنفلکٹ اسٹڈیز سے وابستہ اور بچوں کے تحفظ کے موضوع پر تحقیق کرنے والے ریسرچر مقصود جان بھی اس بات سے متفق ہیں کہ پاکستانی معاشرے میں اس قسم کے واقعات کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ نومبر 2015ء میں بنوں شہر میں کی جانے والی ایک تحقیق میں بھی ایسے کیسز سامنے آئے تھے اور ایسے واقعات کی وجہ سے بعض لوگوں نے اپنے بچوں کو دور دراز کے اسکولوں میں تعلیم حاصل کرنے سے روک دیا ہے۔ وہ مزید کہتے ہیں، ’’ہمارے لوگ اس بارے میں بات کرنے سے کتراتے ہیں، میں سمجھتا ہوں کہ اب یہ ایک اہم مسئلہ بن چکا ہے، اس بارے میں علماء کو بھی بات کرنی چاہیے اور اس کے خلاف مختلف اقدامات کی اشد ضرورت ہے۔‘‘
پشاور ہائی کورٹ کے وکیل سید بلال اندرابی کہتے ہیں کہ پاکستان پینل کوڈ کے سیکشن 377 کے تحت اس قسم کے ملزمان کے لیے کم ازکم دو سال سے دس سال تک سزا مقرر ہے۔ تاہم ان کے مطابق بھی خیبر پختونخوا میں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے مقدمے کم ہی درج ہوتے ہیں اور بدنامی سے بچنے کی خاطر خاموشی برتی جاتی ہے، ’’لوگوں کو اپنی بدنامی کا بھی ڈر ہوتا ہے اور ملزمان بھی اثر و رسوخ والے ہو سکتے ہیں، غریب لوگ ان کا مقابلہ نہیں کرسکتے جب کہ دوسری طرف قانونی کارروائی بہت سست ہوتی ہے، جس کے لیے ثبوت اور میڈیکل رپورٹ کی بھی ضرورت ہوتی ہے ۔‘‘