جنرل پیٹریاس کا دورہ اسلام آباد
15 دسمبر 2009پاکستانی قیادت سے ملاقاتوں میں پیٹریاس نے جنوبی اور مشرقی افغانستان میں 30 ہزار اضافی افواج کی تعیناتی کے پاکستان پر ممکنہ اثرات اور سرحدی علاقوں میں مربوط فوجی حکمت عملی تشکیل دینے پر تبادلہ خیال کیا،کیونکہ پاکستان کی عسکری قیادت اور وزیراعظم گیلانی نے اس حوالے سے اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس پالیسی کی کامیابی کےلئے پاکستان کو اعتماد میں لیا جانا ضروری ہے۔
اسلام آباد میں سرکاری ذرائع کے مطابق ان ملاقاتوں میں پاکستانی اور افغان طالبان کے درمیان بڑھتے ہوئے تعلقات اور ان گروپوں کا القاعدہ کے ساتھ قریبی روابط پر بھی غور کیا گیا، جبکہ پاک افواج کے ترجمان ادارے آئی ایس پی آر کے ایک مختصر اعلامیے میں بتایا گیا ہے کہ جنرل پیٹریاس اور جنرل کیانی کے درمیان ملاقات میں پیشہ وارانہ امور زیر بحث آئے۔ جنرل پیٹریاس نے اسلام آباد روانگی سے قبل بحرین میں ایک سیکیورٹی کانفرنس سے خطاب میں ایک بار پھر ان عناصر پر دباؤ بڑھانے کی ضرورت پر زور دیا تھا، جو افغانستان میں مسائل پیدا کر رہے ہیں۔
اس موقع پر وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے جنوبی وزیرستان میں پاکستانی افواج کی تازہ ترین کامیابیوں کا ذکر کیا تو امریکی جرنیل نے کہا کہ یہ کارروائیاں قابل ستائش ہیں، تاہم امریکہ دہشت گردوں میں تمیز نہیں کرتا، چاہے ان کا تعلق سرحد پار سے ہو یا پاکستان سے۔ جنرل پیٹریاس کا واضح اشارہ جلال الدین حقانی، ملا عمر اور گلبدین حکمت یار کے ان گروپوں کی طرف تھا، جو امریکی افواج کے تو خلاف ہیں مگر انہیں پاکستان کے قریب سمجھا جاتا ہے۔
جنرل پیٹریاس اور افغانستان میں امریکی افواج کے کمانڈر جنرل میک کرسٹل کے بیانات سے اندازہ ہوتا ہے کہ امریکی اور نیٹو عسکری قیادت افغانستان کے ساتھ ساتھ پاک افغان سرحدی علاقوں میں بھی عراق کی طرز پر کمیونٹی ڈیفنس انیشیٹیوکے نام سے مقامی افراد پر مشتمل ایسے چھوٹے گروہ تشکیل دینے کی کوششوں میں مصروف ہیں، جو غیر ملکی مشیروں کی رہنمائی میں قصبوں اور دیہاتوں میں چھپے دہشت گردوں کی نشاندہی اور خاتمہ کر سکیں۔
رپورٹ : امتیاز گل، اسلام آباد
ادارت : عاطف توقیر