جموں و کشمیر میں پسند کی شادی ایک جرم بن گئی
19 دسمبر 2011کشمیری خاندان لڑکے اور لڑکی کی باہمی رضا مندی سے طے پا جانے والی شادیوں کے شدید مخالف ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ان واقعات کی روک تھام کے لیے عصمت دری کے الزامات استعمال کرنے کی شرح بڑھ رہی ہے۔ ستمبر میں جموں و کشمیر کی قانون ساز اسمبلی کے ایک اجلاس کے دوران حکومت نے گزشتتہ چار برسوں کے دوران والدین کی جانب سے عصمت دری کے مقدمات کے اندراج کے حوالے سے جو اعداد و شمار پیش کیے، اُن کےمطابق 2006ء سے 2010ء کے درمیان صرف ضلع سرینگر میں عصمت دری کے 120 واقعات درج ہوئے۔
قانونی ماہرین کے مطابق ایسے ہی سینکڑوں مقدمات آج کل کشمیر کی مختلف ضلعی عدالتوں میں زیر التوا ہیں اور ان میں سے زیادہ تر مقدمات میں واضح شواہد بھی دستیاب نہیں ہیں۔ قانونی ماہر شیخ محمد سلطان نے آئی پی ایس کو بتایا کہ اکثریتی مقدمات ان والدین کی جانب سے درج کروائے گئے ہیں، جن کی بیٹیوں نے یا تو اپنی پسند کی شادی کر لی یا پھر وہ اپنے والدین کی خواہش کے بر عکس کسی لڑکے کو پسند کرتی ہیں اور اس سے شادی کرنا چاہتی ہیں۔ دوسری جانب بد قسمتی سے وادی میں بدنامی کے خوف سے عصمت دری کے اصل واقعات کا اندراج نہیں کرایا جاتا۔
محبت کی شادی کے ایک واقعے میں ایک نوجوان جوڑے عمران اور شفین نے اپنے والدین کی خواہش کے برعکس مرضی سے شادی کر لی۔ جب لڑکی کے والدین کو اس بات کا پتہ چلا تو انہوں نے عمران کے خلاف شفین کے اغوا اورعصمت دری کا مقدمہ درج کرا دیا۔ پولیس نے ان الزامات کو تسلیم کرے ہوئے نوجوان جوڑے کو حراست میں لے لیا۔ عمران کے وکیل عرفان مٹو کے مطابق جب عمران اور شفین نے اپنا نکاح نامہ پیش کیا تو پولیس نے اسے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور پھاڑ کر پھینک دیا۔
عرفان مٹو کا مزید کہنا تھا کہ شفین کے والدین نے اس پر زبر دستی کرتے ہوئے اسے عمران کے خلاف بیان دینے پر مجبورکر دیا۔ بعد میں جب شفین نے اپنے ابتدائی بیان کو تبدیل کر کے حقائق بتانا چاہے تو اسے معلوم ہوا کہ قانونی اعتبار سے اب ایسا ممکن نہیں ہے۔ تاہم بعد میں عمران کی ضمانت کا انتظام تو کر لیا گیا لیکن اس نوجوان جوڑے کو تین برس تک مختلف مصائب کا سامنا کرنا پڑا۔ قانونی ماہر شیخ محمد سلطان کے مطابق ایسے سینکڑوں واقعات منظر عام پر نہیں آتے ہیں اور نوجوان جوڑوں کو خاموشی اختیار کرتے ہوئے اس پوری تکلیف دہ صورتحال سے نبرد آزما ہونا پڑتا ہے۔
ماہرین کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ شرعی قوانین کے مطابق بھی ایک عورت کی شادی کے لیے عمر کی حد کا تعین نہیں کیا گیا ہے اور ایک عورت شادی کا فیصلہ اپنی مرضی سے کر سکتی ہے۔ سماجی کارکنوں کے مطابق والدین اور علماء کرام کو اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے اور والدین کی جانب سے حقائق کے برعکس عصمت دری کے واقعات کے اندراج کی حوصلہ شکنی ہونی چاہیے۔
سماجی کارکن نگہت پنڈت اس حوالے سے کہتی ہیں کہ جب اسلام ایک لڑکی کو اپنی رضامندی سے زندگی کا ساتھی چننے کا اختیار دیتا ہے تو والدین کو بھی اس سلسلے میں مزاحمت نہیں کرنی چاہیے۔ نگہت کے خیال میں علمائے کرام کو والدین اور نوجوانوں کو اپنی مرضی سے شادی کرنے اور اس حوالے سے اخلاقی اور مذہبی تعلیمات سے آگاہ کرنا چاہیے۔
رپورٹ: شاہد افراز خان
ادارت: امجد علی