جعلی سوفٹ وئیر ، علاج آخر کیا؟
16 مئی 2010اندازہ ہے کہ سوفٹ وئير پروگراموں کی جعلی نقلوں کی تياری کو 10 فيصد کم کردينے سے صرف جرمنی ميں 1200 سے زيادہ نئی ملازمتيں پيدا کی جاسکتی ہيں۔ گزشتہ سال دنيا بھرميں غير قانونی سوفٹ وئير کے تناسب ميں نماياں اضافہ ہوا۔ اس کا انکشاف اس شعبے کی عالمی ايسوسی ايشن بزنس سوفٹ وئيرالا ئنس يا بی ايس اے کے ايک تازہ جائزے سے ہوا ہے۔
بی ايس اے کے يورپی سربراہ گيورگ ہيرن ليبن نے کہا:’’جائزے کا اہم ترين پہلو يہ ہے کہ سن 2009ء ميں غيرقانونی نقليں تيار کرنے کے جرائم ميں اضافہ ہوا اور يہ 41 سے بڑھھ کر 43 فيصد تک پہنچ گئے۔اس کا مطلب يہ ہے کہ دنيا بھر ميں جو کمپيوٹر سوفٹ وئير پروگرام استعمال کئے جارہے ہيں، اُن کا تينتاليس فيصد غير لائسنس يافتہ يعنی غير قانونی ہے۔ "
اس جائزے سے يہ بھی معلوم ہوا ہے کہ غير قانونی کاپياں بنانے کی وجہ سے گزشتہ سال 50 ارب ڈالر سے بھی زيادہ کا نقصان ہوا۔ جائزے کے مطابق کمپيوٹر سوفٹ وئير کی غير قانونی عالمی تجارت ميں اضافے کی وجہ تيزی سے ابھرتے ہوئے نئے صنعتی ملکوں کی زبردست اقتصادی نمو ہے۔ اس جائزے کے دوران مجموعی طور پر110 سے بھی زائد ممالک ميں چھان بين کی گئی۔ تاہم ان ميں سے تقريباً آدھے ملکوں ميں غير قانونی سوفٹ وئير ميں کمی ہورہی ہے۔
ہيرن ليبن نے کہا کہ مغربی يورپ يا صنعتی ملکوں ميں جعلی نقليں تيار کرنے کا تناسب مشرقی يورپ سے کم ہے ليکن جہاں مغربی يورپ ميں اس ميں کچھھ اضافہ ہوا ہے يا اس کا تناسب پہلے جيسا ہے وہاں مشرقی يورپ ميں غير قانونی سوفٹ وئير ميں کمی ہوئی ہے۔
عالمی سطح پرامريکہ، جاپان اور لکسمبرگ ميں غيرقانونی سوفٹ وئير کا تناسب تقريباً 20 فيصد ہے جو دوسرے ممالک سے بہت کم ہے۔ جيارجيا، مولداويا اور زمبابوے ميں نقلی سوفٹ وئير کی سطح 90 فيصد سے بھی زائد ہے اور يہ سب سے زيادہ ہے۔
جرمنی ميں سوفٹ وئير کی جعلی نقلوں ميں ايک فيصد کا اضافہ ہوا ہے اور ان کا تناسب بڑھ کر 28 فيصد ہوگيا ہے۔ اس طرح اب جزمنی، سوفٹ وئير کے غير قانونی کاروبار کی عالمی فہرست ميں چودھويں نمبر پر پہنچ گيا ہے۔ عمومی طور پر يہ کہا جاسکتا ہے کہ کاروباری شعبے کے مقابلے ميں نجی کمپيوٹر صارفين ميں نقلی کاپياں استعمال کرنے کا زيادہ رجحان پايا جاتا ہے۔
کمپيوٹر سوفٹ وئير، اچھی کارکردگی کے لئے نہايت اہم آلہء کار ہے ۔ اس لئے تجارتی شعبے ميں اس کی غيرقانونی کاپياں تيارکرنے والوں کے خلاف تحقيقات اورسزا پرتوجہ دی جارہی ہے۔
رپورٹ: شہاب احمد صدیقی
ادارت: عاطف بلوچ