جرمن وزیر خارجہ بھارت کے تین روزہ دورے پر
19 نومبر 2008بھارت کو ایک ایسا معاشرہ قرار دیا جاسکتا ہے جہاں داخلی تضادات کی کوئی کمی نہیں ہے اور یہ ملک ایشیاکی بڑی تیزی سے ترقی کرتی ہوئی معیشت بھی ہے۔ بھارت ٹیکنالوجی کے شعبے میں بھی کافی پیش رفت کا مظاہرہ کررہا ہے اور اس نے ابھی حال ہی میں اپنا جو اولین مشن چاند پر بھیجا، اس پر قریب 60 ملین یورو لاگت آئی۔ لیکن ساتھ ہی بھارت میں غربت کی بھی کوئی کمی نہیں ہے۔ بھارت کے 1.2بلین میں سے آدھے سے زائد شہری دوڈالر سے بھی کم کی یومیہ آمدنی پر گذارہ کرنے پر مجبور ہیں۔
جرمن امدادی تنظیم Welthungerhilfe کے بھارت کے لئے علاقائی ڈائریکٹربیرنارڈ ہوئپر کہتے ہیں کہ بات اگر بھارت کے پنجاب اور ہریانہ جیسے صوبوں کی بھی کی جائے تو وہاں اشیائے خوراک کی دستیابی کی ضمانت کے حوالے سے حالات کئی افریقی ملکوں کی صورت حال سے بھی خراب ہیں۔
بھارت کے اپنے اولین دورے کے دوران جرمن وزیر خارجہ فرانک والٹر شٹائن مائر کو اس ملک میں سماجی تضادات کے اس پہلو سے روشناس ہونے کا موقع تو کم ہی ملے گا کیونکہ ان کی بھارتی رہنماؤں کے ساتھ بات چیت ملکی دارالحکومت نئی دہلی، جنوبی بھارت میں ٹیکنالوجی کے مرکزبنگلور اور ایسے ہی دوسرے شہروں میں ہوگی۔ اس بارے میں برلن میں جرمن دفتر خارجہ کے ترجمان کا کہنا ہے کہ شٹائن مائر کے اس دورے کے دوران زیادہ تر بات چیت عالمی مالیاتی منڈیوں کی موجودہ صورت حال کے بارے میں ہو گی، اس بارے میں کہ عالمی معیشت میں ترقی کی شرح کو مستحکم رکھنے میں ترقی کی دہلیز پر کھڑی ریاستیں کیا کردار اداکرسکتی ہیں اور یہ بھی کہ تحفظ ماحول سمیت عالمی نوعیت کے دیگر چیلنجوں پر قابو کیسے پایا جاسکتا ہے۔
جہاں تک بھارت کی طرف سے ایٹمی توانائی کے شعبے میں بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کے ساتھ تعاون کا سوال ہے تو جرمن وزیر خارجہ اس امید کے ساتھ بھارت گئے ہیں کہ اگرمکمل نہیں تو نئی دہلی حکومت کم ازکم جزوی طور پر ایٹمی توانائی کے ادارے کو اپنی جوہری تنصیبات کے معائنے کی اجازت دے دے گی۔
اس حوالے سے جرمنی میں اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں میں کوئی زیادہ اطمینان نہیں پایا جاتاکہ یہ امکان کافی زیادہ ہے کہ بھارت اپنی صرف دو تہائی ایٹمی تنصیبات کے معائنے کی اجازت دے سکتا ہے۔ لیکن فرانک والٹر شٹائن مائر اس بات کو اس لئے ایک اچھی امکانی پیش رفت قرار دیتے ہیں کہ یوں کم ازکم بھارت کو بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کے ساتھ بھر پور اشتراک عمل کےقریب تر لایا جاسکتا ہے۔