1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’جرمن نظام تعلیم میں بہتری کی گنجائش ہے‘

عابد حسین16 ستمبر 2016

جرمی میں تعلیم کے شعبے میں مثبت پیش رفت کے اشارے سامنے آئے ہے۔ یہ بات یورپی بین الحکومتی ادارے OECD کے تعلیم سے متعلق شعبے پیسا نے اپنی ایک جائزہ رپورٹ میں کہی ہے۔

https://p.dw.com/p/1K3co
تصویر: picture-alliance/dpa/T. Eisenhuth

جرمنی یورپ کے علاوہ دنیا کے امیر اور ترقی یافتہ ملکوں میں شمار ہوتا ہے۔ کچھ عرصہ قبل پینتیس مختلف ملکوں کی حکومت کے درمیان اقتصادی اور ترقیاتی تعاون کے ادارے او ای سی ڈی (OECD) کے ایک ذیلی شعبے پیسا یا PISA (پروگرام برائے انٹرنیشنل اسٹوڈنٹس اَسسمنٹ) نے اپنی ایک رپورٹ میں واضح کیا تھا کہ جرمن نظام تعلیم جمود کا شکار ہو گیا ہے۔

اس رپورٹ نے جرمنی میں ہلچل پیدا کر دی تھی۔ سابقہ رپورٹ کے مطابق جرمنی کے مقابلے میں دوسرے یورپی ممالک کے طلبا زیادہ زبانوں سے شناسائی کے ساتھ ساتھ سائنس کے مضامین میں بھی بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔

Pisa-Studie Berlin Deutschland PK Heino von Meyer
او ای سی ڈی کی پیسا رپورٹتصویر: picture alliance/dpa

اب ایک مرتبہ پھر او ای سی ڈی کے ادارے پیسا نے جرمن نظام تعلیم کی موجودہ صورت پر جائزہ رپورٹ پیش کی ہے۔ اس رپورٹ میں واضح کیا گیا ہے کہ جرمنی میں تعلیم کے شعبے میں بہتری پیدا ہوئی ہے لیکن ابھی اِسے مزید بہتر بنانے کی گنجائش ہے۔

اس رپورٹ کے مطابق جرمنی کے شعبہٴ تعلیم میں مثبت پیش رفت کی ایک اہم وجہ متوازی اسکولوں کا سسٹم ہے۔ اس نظام کے تحت معمول کے اسکولوں کے ساتھ ساتھ پیشہ ورانہ تربیت کے اسکول بھی متعارف کرا دیے گئے ہیں۔

یورپی اقتصادی ترقیاتی تعاون کی تنظیم OECD کے مطابق جرمنی کی اقتصادی ترقی میں یہ پیشہ ورانہ اسکول ہنر مند افراد کو روزگار کی منڈی میں لا رہے ہیں اور یہی اِس ملک کی اقتصادی ترقی کا ایک اہم پہلو ہے۔

Pisa Studie 2010
جرمنی میں ہونہار بچوں پر ٹیچر زیادہ توجہ دیتے ہیںتصویر: picture-alliance/dpa

اِس رپورٹ میں جرمن نظامِ تعلیم کا ایک بڑا کمزور پہلو یونیورسٹی کی سطح اور بچوں کی ابتدائی تعلیم کے عرصے میں والدین کو پر بھاری فیسوں کے بوجھ کو قرار دیا گیا ہے۔ رپورٹ مرتب کرنے والوں نے برلن حکومت کو اِس معاملے میں غور و فکر کرنے کا مشور دیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق جرمنی میں اسکولوں میں ہونہار بچوں پر خاص توجہ دی جاتی ہے اور اِس باعث بےشمار طلبا نظرانداز کر دیے جاتے ہیں۔

پیسا نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ قطع نظر اس کے جرمن اسکولوں کے بارہ یا تیرہ سالہ تعلیم کا نظام رائج کیا جاتا ہے، یہ اہم ہے کہ تعلیم دینے والے اساتذہ کا معیار کتنا بہتر ہے۔ رپورٹ کے مطابق معیاری تعلیم صرف معیاری استاد ہی فراہم کرسکتا ہے۔ اس مناسبت سے بتایا گیا ہے کہ جرمن ٹیچرز پر پڑھانے کا بوجھ کئی دوسرے ملکوں کے مقابلے میں زیادہ ہے۔

جاپان میں ایک ٹیچر اوسطاً 513 گھنٹے پڑھاتا ہے جبکہ ایک جرمن ٹیچر کو سال بھر میں اوسطاً 714 گھنٹے پڑھانا ہوتا ہے۔ اس تناظر میں تجویز کیا گیا ہے کہ جرمنی میں ٹیچرز کے پیشے کو اپ گریڈ کرنے کی اشد ضرورت ہے۔