جرمن شہریوں میں مطالعے کی عادات میں کمی
29 جنوری 2009گذشتہ آٹھ برسوں میں جرمنی میں مطالعے کی عادات پر مرتب کیا جانے والا یہ سب سے جامع جائزہ ہے۔ اِس سے پتہ چلا ہے کہ جہاں سن دو ہزار میں جرمنی میں بالغ افراد اور نوعمروں کی ایک تہائی تعداد ایسی تھی، جو سال میں پچاس یا اِس سے زیادہ کتابوں کا مطالعہ کرتی تھی، وہاں اب یہ تعداد کم ہو کر محض ایک چوتھائی رہ گئی ہے۔ جرمن باشندوں کی ایک چوتھائی تعداد ایسی بھی ہے، جس نے کبھی کتاب کو ہاتھ بھی نہیں لگایا۔ جائزے کے مرتبین کے خیال میں اِس کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ بہت سے والدین مطالعےکی عادت کے اعتبار سے اپنے بچوں کے لئے کوئی مثال نہیں بنتے۔ ’’مطالعہ فاؤنڈیشن‘‘ کے سروے میں شریک چَودہ تا اُنیس سال کی عمر کے لڑکے لڑکیوں کی نصف تعداد کا کہنا یہ تھا کہ بچپن میں اُنہیں تحفے کے طور پر کبھی کوئی کتاب نہیں دی گئی۔ جرمن شہر مائنز میں قائم ’’مطالعہ فاؤنڈیشن‘‘ کے نمائندے کرسٹوفر شیفر بتاتے ہیں: ’’مطالعے کی عادت کے فروغ کے لئے سرکاری لائبریریوں کا بنیادی ڈھانچہ سب سے اہم کردار ادا کرتا ہے۔ بچت کرنے کی مجبوریاں لائبریروں کے وجود کے لئے خطرہ بنی ہوئی ہیں۔ کسی لائبریری کا کیا فائدہ، جب اُس کے پاس نئی کتابیں خریدنے کے لئے بجٹ ہی نہ ہو یا اُنہیں وسائل کی کمی کے باعث اپنے کھلنےکے اوقات محدود کرنا پڑیں۔‘‘
اِس مطالعاتی جائزے کے نتیجے میں سب سے اہم بات یہ سامنے آئی کہ جرمنی میں ترکِ وطن کے پس منظر کے حامل افراد میں بھی مطالعے کی عادات ویسی ہی ہیں، جیسی کہ عام جرمن باشندوں کی۔ ترکِ وطن کا پس منظر رکھنے والے چھتیس فیصد افراد ایسے تھے، جنہوں نے یہ بتایا کہ وہ ہفتے میں متعدد مرتبہ کسی نہ کسی کتاب کا مطالعہ کرتے ہیں۔ گیارہ فیصد کا تو یہ بھی کہنا تھا کہ مطالعہ اُن کے روزمرہ معمول کا حصہ ہے۔ کرسٹوفر شیفر کہتے ہیں: ’’نئی بات درحقیقت یہ ہے کہ ترکِ وطن کے پس منظر کے حامل لیکن جرمن زبان جاننے والے بالغ افراد کی ایک بڑی تعداد مطالعہ کرتی ہے۔ یہ بات ہمارے لئے غیر متوقع تو نہیں تھی لیکن اب ایک جامع مطالعاتی جائزے سے ثابت بھی ہو گئی ہے۔ ایک بات یقینی ہے کہ یہ وہ لوگ ہیں، جو مطالعے کو تعلیم و تربیت کے طور پر بھی اہمیت دیتے ہیں، جن کا ایک کامیاب تعلیمی کیریئر رہا ہے اور جو سیدھے سیدھے یہ بات جانتے ہیں کہ جرمنی میں تعلیم و تربیت کا مطلب ہے، نہ صرف پیشہ ورانہ بلکہ نجی زندگی میں بھی کامیابی۔‘‘
مطالعہ فاؤنڈیشن کا یہ تازہ جائزہ دو ہزار پانچ سو سے زیادہ نوعمروں اور بالغ افراد سے پوچھ گَچھ کے نتیجے میں مرتب کیا گیا ہے۔ اِس میں روشنی کی ایک کرن یہ بھی ہے کہ جہاں آٹھ سال پہلے روزانہ مطالعہ کرنے والوں کی تعداد محض چھ فیصد تھی، وہاں دو ہزار آٹھ میں بڑھ کر نو فیصد ہو گئی۔ اِس سروے کے لئے اخراجات وفاقی جرمن وَزارتِ تعلیم نے فراہم کئے۔