جرمن شہریوں اور شامی مہاجرین کے درمیان ہاتھا پائی
1 اکتوبر 2016اس واقعے کے پیچھے غیر ملکیوں سے نفرت کا جذبہ کار فرما ہو سکتا ہے۔ اس حوالے سے ریاستی سلامتی کے ادارے نے تحقیقات کا آغاز کر دیا ہے۔ اس کا محرک بدھ کے روز ایک سولہ سالہ مقامی لڑکے اور ایک پندرہ سالہ شامی مہاجر بچے کے درمیان ہونے والی وہ لڑائی ہو سکتی ہے، جس کے نتیجے میں جرمن لڑکا شامی بچے کے ہاتھوں زخمی ہو گیا تھا۔ دونوں گروپوں کے درمیان گزشتہ شام ہونے والی لڑائی پولیس کے متعلقہ پناہ گزین کیمپ تک پہنچنے سے پہلے ہی ختم ہو گئی تھی۔ ابھی تک اس بارے میں واضح اطلاعات نہیں ہیں کہ اصل میں کیا ہوا تھا۔ پولیس دیگر ممکنہ وجوہات کے حوالے سے چھان بین کر رہی ہے۔ تاہم اب تک ہونے والی تحقیقات سے پتہ چلتا ہے کہ یہ لڑائی مقامی لڑکوں اور شامی مہاجر بچوں کے گروپوں کے ایک دوسرے کے مد مقابل آ جانے کے بعد شروع ہوئی۔
دوسری جانب نامعلوم افراد نے جرمنی کے ایک چھوٹے سے شہر اوئرزڈورف کے مہاجر دوست نظریات کے حامل میئر یوآخم کیب شُل کے سر پر ڈنڈے سے وار کرتے ہوئے اُنہیں شدید زخمی کر دیا۔ اوئرزڈورف میں حکام نے جمعے کے روز بتایا کہ ایسا غالباﹰ کیب شُل کے اس منصوبے کے خلاف ردِعمل کے طور پر کیا گیا ہے، جس کے تحت وہ علاقے میں پناہ گزینوں کے لیے ایک رہائشی مرکز تعمیر کرنے والے ہیں۔ یوآخم کیب شُل کے سر پر ڈنڈے سے اس وقت وار کیا گیا جب وہ شہر کی منصوبہ بندی سے متعلق ایک اجلاس میں شرکت کے لیے جا رہے تھے۔ حملے کے نتیجے میں کیب شُل بے ہوش ہو گئے اور انہیں اسپتال لے جایا گیا۔ مقامی پولیس کے مطابق اوئرزڈورف کے میئر کو جمعرات کے روز ہوئے اس حملے سے پہلے بڑی تعداد میں دھمکی آمیز فون آ رہے تھے۔
اس کے علاوہ میئر کو گزشتہ کئی ماہ سے ایسے خطوط بھی موصول ہو رہے تھے، جن میں اس قسم کے نعرے درج تھے،’’اوئرزڈورف صرف مقامی لوگوں کے لیے ہے۔ وہ جو ہماری بات سننے کو تیار نہیں، ہم انہیں اپنا موقف سمجھا کر رہیں گے۔‘‘ غیر ملکیوں سے نفرت پر مبنی ان دھمکی آمیز پیغامات کے پیشِ نظر مقامی پولیس حکام کا کہنا ہے کہ وہ اس حملے کے سبب کے طور پر دائیں بازو کے سیاسی محرکات کے امکان پر سنجیدگی سے غور کر رہے ہیں تاہم باقی ممکنہ وجوہات کو بھی ابھی خارج از امکان قرار نہیں دیا گیا۔
یاد رہے کہ جرمنی قریب ایک ملین پناہ گزینوں کو ملک میں معاشی اور سماجی سطح پر ضم کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے تاہم کچھ عرصے سے یہاں مہاجر کیمپوں اور پناہ گزینوں پر متعصبانہ حملوں میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔