1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
قانون کی بالادستی

جرمن خفیہ ادارہ کیسے کام کرتا ہے؟ خود جا کر دیکھ لیجیے

7 نومبر 2019

جرمن خفیہ ادارے بی این ڈی کا صدر دفتر دارالحکومت برلن منتقل کیے جانے کے بعد سے یہ انٹیلیجنس ایجنسی ’راز داری‘ کے بجائے اپنا تشخص ’شفافیت‘ کی جانب لا رہی ہے۔ اسی لیے ایجنسی کی عمارت میں شہریوں کے لیے ایک نمائش جاری ہے۔

https://p.dw.com/p/3Sbon
Besucherzentrum Bundesnachrichtendienst BND
تصویر: photothek.net

جرمنی میں ایک وقت ایسا بھی تھا کہ فارن انٹیلیجنس ایجنسی کے وجود کو بھی راز میں رکھا جاتا تھا۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد کے وقتوں میں سیکرٹ سروسز کی 'چھپن چھپائی کا کھیل‘ کئی مرتبہ بدنما صورت بھی اختیار کرتا رہا۔ ان دور میں بیرون ملک جاسوسی کرنے والا جرمن خفیہ ادارہ 'سول سرونٹس‘ کا نام استعمال کرتا تھا اور بی این ڈی کے دفاتر میونخ کے جنوب میں پُلّاخ نامی قصبے کے نواح میں کسی خفیہ جگہ پر تھے۔ اب اس ایجنسی کا بہت بڑا صدر دفتر برلن میں ہے۔

’امریکی جاسوس برسوں تک روسی صدر کی رہائش گاہ میں ملازم رہا‘

جرمنی کی سلامتی کو یقینی بنانے کے ذمہ دار خفیہ ادارے کے لیے دارالحکومت میں صدر دفتر بنانے سے بہتر بات تو کوئی نہیں ہو سکتی لیکن انہیں تو خفیہ بھی رہنا ہوتا ہے۔

اس کے برعکس بی این ڈی نے اب اپنا تاثر بہتر بنانے کے لیے برلن میں ایک بہت بڑی اور نمایاں عمارت میں گھر کر رکھا ہے۔ شفافیت کا تاثر مزید مضبوط کرنے کے لیے بدھ کے روز سے بی این ڈی کے مرکزی دفتر کے دروازے عام لوگوں کے لیے بھی کھول دیے گئے اور ایک نمائش کا اہتمام کیا گیا۔

جرمن خفیہ ادارے کی وسیع و عریض عمارت کو دنیا کے دیگر خفیہ اداروں کی نسبت منفرد قرار دیا جا رہا ہے اور اس کی تعمیر اور خفیہ ادارے کی یہاں منتقلی رواں برس ہی مکمل ہوئی ہے۔ جرمن چانسلر کے ماتحت کام کرنے والے اس ادارے کے 6500 ملازمین اپنے ساتھ 'سیکرٹ سروس‘ کے الفاظ منسوب کیے جانا پسند نہیں کرتے۔

بن لادن کا پتہ چلانے میں آئی ایس آئی نے امریکا کی مدد کی، عمران خان

ایجنسی نے برلن کے مشہور زمانہ 'نیچرل ہسٹری میوزیم‘ کے قریب واقع اپنے دفتر میں میوزیم ہی کی طرز پر نمائش منعقد کر کے اپنے 'خفیہ‘ تاثر ہی کو 'شفاف‘ میں بدلنے کی کوشش کی ہے۔

ستر کی دہائی کا جیمز بانڈ اسٹائل

عمارت میں 120 سے زائد ملٹی میڈیا اور انتہائی جدید انسٹالیشنز سیاحوں کو اپنی جانب راغب کرتی ہیں۔ 72 مربع میٹر کی دو منزلہ ایل ای ڈی دیوار سب سے نمایاں دکھائی دیتی ہے۔ ایک سہ جہتی پینوراما، جس میں دمکتے نقطے اور لائنیں دکھائی دیتی ہیں، حاضرین کے تخیل کو مہمیز لگانے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔ یہ سب دیکھ کر یوں لگتا ہے جیسے بی این ڈی عوامی ٹیکسوں کے پیسوں سے تعمیر کردہ اس صدر دفتر کو اکیسویں صدی کی کسی جدید ٹیکنالوجی کمپنی کے دفتر کی مانند پیش کر رہی ہے۔

نمائش دیکھنے والے یہاں سے نہ تو ڈرونز خرید سکتے ہیں اور نہ ہی جدید خفیہ آلات، لیکن وہ جاسوسی کی دنیا کے جدید اور قدیم آلات دیکھ ضرور سکتے ہیں۔ کچھ تو ایسے ہیں جنہیں دیکھ کر لگتا ہے جیسے وہ ستر کی دہائی کی جیمز بانڈ فلموں سے تعلق رکھتے ہوں گے۔

چمکدار اسپاٹ لائٹ میں خوبصورت خواتین میں گھرے ایک انڈرکور خفیہ اہلکار کا روایتی تصور نمایاں کرتے ہوئے سن 1967 کی ایک فلم 'اسپائی ٹوڈے‘ کے ایک پوسٹر میں تحریف بھی کی گئی ہے اور ان دونوں انسٹالیشنز کو دیکھ کر صاف دکھائی دیتا ہے کہ بی این ڈی خود پر طنز کرنے سے بھی گریز نہیں کرتی۔

معاملات سنجیدہ بھی ہوتے ہیں

یہ تو نمائش کا ایک ہلکا پھلکا پہلو تھا لیکن سیکرٹ سروس کو انتہائی سنجیدہ معاملات سے بھی نمٹنا ہوتا ہے۔ بی این ڈی کی چار سو مربع میٹر پر پھیلی نمائش میں ایسے سنجیدہ پہلوؤں کا احاطہ بھی کیا گیا ہے۔

اس نمائش میں رکھی ایک خودکش جیکٹ اس بات کا عندیہ دیتی ہے کہ سیکرٹ سروس کے اہلکاروں کو کام کے دوران جان لیوا خطرات بھی لاحق ہوتے ہیں۔ کئی ستونوں پر درج معلومات سیر کرنے والوں کو ان قانونی بنیادوں کے بارے میں معلومات فراہم کرتی ہیں، جن کے تحت اس خفیہ ادارے کو اپنا کام کرنا ہوتا ہے۔

کمیونسٹ جرمنی کے تاریخی ریکارڈ سے پوٹن کا شناختی کارڈ مل گیا

اگر آپ اس نمائش میں جانا چاہتے ہیں تو فوری طور پر بکنگ کر لیجیے، سکیورٹی وجوہات کی بنا پر ابھی صرف رجسٹرڈ افراد ہی ڈھائی ملین یورو کی لاگت سے تیار کردہ یہ نمائش دیکھ سکتے ہیں۔ تاہم مستقبل کے لیے بی این ڈی کا ارادہ یہ ہے کہ سیاح اس ایجنسی کی عمارت کی بھی ویسے ہی چلتے پھرتے سیر کر سکیں، جیسے وہ قریب ہی بنے نیچرل ہسٹری میوزیم میں چلتے پھرتے داخل ہو جاتے ہیں۔

مارسیل فئرسٹیناؤ (ش ح / م م )