جرمن حکومت نے اپنی ہی خفیہ ایجنسی کی رپورٹ مسترد کر دی
4 دسمبر 2015جرمن حکومت کے مطابق سعودی عرب خطے میں تنازعات کے حل کے لیے جرمنی کا ایک کلیدی حلیف ہے۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق جرمن چانسلر ، وزارت دفاع اور خفیہ ادارےکے درمیان پائی جانے والی تقسیم اس عمل سے واضح ہے، جہاں ایک طرف دیگر ممالک کے حوالے سے خفیہ معلومات جمع کرنے والی خفیہ سروس بنڈس ناخرشٹن ڈِینس BND ہے جب کہ دوسری جانب وزارت خارجہ اور چانسلر دفتر۔
اس خفیہ ادارے کی رپورٹ کے مطابق، ’’ماضی میں سعودی شاہی خاندان کی جانب سے سفارتی معاملات میں محتاط رویہ اپنایا گیا، تاہم اب یہ خاندان مداخلت کے ذریعے قائدانہ کردار کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔‘‘
اس رپورٹ میں خصوصاﹰ نائب والی عہد محمد بن سلمان، جن کے پاس دفاع سمیت متعدد اہم محکمے ہیں، پر توجہ مرکوز کی گئی ہے۔
بی این ڈی کے مطابق نائب ولی عہد اور ان کے والد شاہ سلمان جنہیں رواں برس جنوری میں بادشاہت کا منصب حاصل ہوا، عرب دنیا میں خود کو ’ایک قائد‘ کی حیثیت سے منوانا چاہتے ہیں اور اسی وجہ سے ان کی توجہ خارجہ پالیسی پر مرکوز ہے جب کہ وہ عسکری عنصر کو شامل کر کے خطے میں نئے اتحادی بنانا چاہتے ہیں۔
اس رپورٹ پر اپنے تبصرے میں جرمن حکومت کے ترجمان اشٹیفان زائبرٹ نے جمعے کے روز کہا کہ برلن حکومت خطے میں سعودی عرب کے کردار کو نہایت اہمیت دیتے ہے، ’’بی این ڈی کی جانب سے سامنے آنے والا جائزہ جرمن حکومت کی اس پالیسی سے مطابقت نہیں رکھتا۔‘‘
انہوں نے مزید کہا، ’’ایسے ممالک جو خطے میں اہم مسائل کے حل میں پیش رفت چاہتے ہیں، جن کی تعداد کافی ہے، سعودی عرب کے ساتھ تعمیری تعلقات کے خواہاں ہیں۔‘‘
انہوں نے زور دے کر کہا کہ خطے میں سعودی عرب انتہائی اہمیت کا حامل ملک ہے۔ زائبرٹ نے اپنے بیان میں ویانا میں شام کے موضوع پر ہونے والے مذاکرات میں سعودی شرکت کا ذکر کیا اور کہا کہ اب سعودی عرب بشارالاسد کے مخالف گروپوں کے ایک اجلاس کی میزبانی بھی کر رہا ہے۔