جرمنی: نسل پرستی معاشرے کی ترقی کے لیے نقصان دہ
21 ستمبر 2016جرمنی کے مشرقی صوبوں میں غیر ملکیوں کے خلاف نسل پرستانہ واقعات میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ اس سلسلے میں ایک تازہ جائزے کے مطابق جرمنی کے مشرقی حصوں میں مہاجرین کے خلاف احتجاج زیادہ ہونے لگے ہیں جبکہ کئی شہروں میں مہاجرین اور دائیں بازو کے شدت پسندوں کے مابین ہنگامہ آرائی بھی ہوئی ہے۔ حکومتی اہلکار اِرس گلائکے نے اس صورتحال کو معاشرے اور اقتصادی ترقی کے لیے ایک سنجیدہ خطرہ قرار دیا ہے۔ آج بدھ کو انہوں نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ مشرقی صوبوں میں رہنے والے زیادہ تر لوگ غیر ملکیوں کے خلاف نہیں ہیں اور نہ ہی یہ لوگ دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے انتہا پسند ہیں، ’’یہ میری خواہش ہے کہ یہ حلقہ اپنی آواز بلند کرے اور اپنی معاشرتی ذمہ داریاں پوری کرے۔‘‘
قابل ذکر بات یہ ہے کہ جرمنی کے مشرقی شہروں میں غیر ملکیوں کی تعداد قدرے کم ہے۔ تاہم اس فہرست میں برلن شامل نہیں ہے کیونکہ دارالحکومت میں غیر ملکی بڑی تعداد میں آباد ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ نسل پرستانہ واقعات کا غیر ملکیوں کی تعداد سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ سوشل ڈیموکریٹ سیاستدان اِرس گلائکے نے مزید کہا کہ دائیں بازو کے شدت پسندانہ واقعات کا اگر اِن علاقوں کی آبادی سے موازنہ کیا جائے تو مشرقی جرمن صوبوں میں ڈرامائی اضافہ دیکھنے کو ملے گا۔
بائیں بازو کے سیاستدان ڈیٹمر بارش نے کہا کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ مشرقی حصے میں رونما ہونے والے واقعات پر سنجیدگی سے توجہ دے،’’میں حکومت سے یہ امید رکھتا ہوں کہ وہ خطرناک ہوتی ہوئی اس صورتحال پر قابو پانے کے لیے مالی تعاون میں بھی اضافہ کرے گی۔‘‘ ابھی گزشتہ دنوں مشرقی شہر باؤٹزن میں تارکین وطن اور دائیں بازو سے تعلق رکھنے والوں کے مابین ہنگامہ آرائی کے بعد حالات کشیدہ ہو گئے تھے۔ اس کے بعد شہر کے مختلف علاقوں میں پولیس کی تعداد میں نمایاں اضافہ کر دیا گیا تھا۔ باؤٹزن میں ہنگامہ آرائی کا آغاز اس وقت ہوا، جب 80 کے قریب مقامی افراد اور 20 مہاجرین نے ایک دوسرے پر حملے کیے۔ یہ شہر جرمنی کی پولینڈ سے ملنے والی سرحد پر واقع ہے۔