1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمنی میں شرح پیدائش میں خوش کن اضافہ

30 دسمبر 2010

جرمن دفتر شماریات کے تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق ملک میں جنوری سے نومبر تک شرحء پیدائش میں 3.6 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا اور یہ اہم خبر اس لیے خوش کن ہےکہ جرمنی کا شمار کم ترین شرح پیدائش والے یورپی ملکوں میں ہوتا ہے

https://p.dw.com/p/zrjB
تصویر: picture-alliance/dpa

وفاقی دفتر شماریات کے مطابق تقریباﹰ 82 ملین کی آبادی والے وفاقی جمہوریہ جرمنی میں سال 2010 کے ابتدائی نو ماہ کے دوران پیدا ہونے والے بچوں کی تعداد ایک سال پہلے اسی عرصے کے دوران پیدا ہونے والے بچوں کی تعداد کے مقابلے میں 20 ہزار زیادہ تھی۔ سال 2009 میں تقریباﹰ 666 ہزاربچے پیدا ہوئے تھے جو 1946 سے لے کے آج تک کی سب سے کم ترین شرح پیدائش تھی۔ تاہم 2010 کی ابتدائی تین سہ ماہیوں کے دوران اس تعداد میں 3.6 فیصد کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ اب یہ توقع کی جا رہی ہے کہ اگر یہ رجحان سال رواں کے آخر تک جاری رہا، تو گزشتہ ایک دہائی کے دوران 2010 میں شرح پیدائش سالانہ بنیادوں پر سب سے زیادہ رہے گی۔ لیکن ابھی 2010 کے آخری تین ماہ کے اعداد و شمار کا سامنا آنا باقی ہے۔

NO FLASH Vorausgesagter Baby-Boom nach WM blieb in NRW bislang aus
جرمنی میں شرح پیدائش میں اضافے کو خوش کن قرار دیا جا رہا ہےتصویر: picture-alliance/dpa

جرمن دفتر شماریات کے ترجمان Manfred Ehling کا کہنا ہے کہ ان اعداد و شمار کا ایک علاقائی پہلو بھی ہے۔ وہ کہتے ہیں، ’’ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ ملک کے مشرقی علاقوں میں مغربی علاقوں کی نسبت زیادہ بچے پیدا ہو رہے ہیں، جس کی ہمارے خیال میں ایک اہم وجہ یہ بھی ہے کہ اس خطے میں بچوں کی دیکھ بھال کا نظام زیادہ بہتر ہے۔‘‘

جرمنی میں اس بات پر تو اتفاق رائے پایا جاتا ہے کہ ملک میں شرح پیدائش کی کمی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ جرمن شہریوں کی ایک بڑی تعداد رفتہ رفتہ ریٹائرمنٹ کی عمر کی طرف بڑھ رہی ہے۔ لیکن ایسے نوجوان کارکنوں کی تعداد میں کمی کی وجہ سے، جو اپنی تنخواہوں میں سے پینشن کے سرکاری فنڈ میں ادائیگیاں کرتے ہیں، حکومت کے لیے یہ بات مشکل ہوتی جا رہی ہے کہ وہ ریٹائرڈ کارکنوں کو پینشن کی ادائیگی کو کس طرح یقینی بنائے۔ اس کا ایک سبب ملک میں شرح پیدائش میں کئی سالوں سے نظر آنے والی کمی بھی ہے۔ تاہم ایک سماجی طبقہ ایسا بھی ہے، جو زیادہ بچوں کی خواہش رکھتا ہے۔ یہ سماجی گروپ زیادہ عمر کی ان خواتین کا ہے، جو اپنے ہاں دوسرے، تیسرے حتیٰ کہ چوتھے بچے کی پیدائش کے لیے بھی تیار ہیں۔

Flash-Galerie Baby-Boom in Dresden
جرمنی میں سال 2010ء میں چھ لاکھ 86 ہزار بچے پیدا ہوئےتصویر: picture-alliance/dpa

جرمن شہر بون کے سینٹ الیزابتھ ہسپتال میں گائنیکالوجی کے شعبے کے سربراہ ڈاکڑ یوآخم رَوس کا کہنا ہے کہ ملک کے مغربی حصے میں بچوں کی پیدائش کی شرح ملک بھر میں سب سے کم ہے تاہم اس میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے اور اب یہ شرح گزشتہ سال کے مقابلے میں آٹھ فیصد زیادہ ہے۔

کچھ عرصے سے جرمن حکومت کی جانب سے لوگوں کو اس بات کی طرف راغب کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں کہ وہ زیادہ بچے پیدا کرنے کا فیصلہ کریں۔ اس کےتحت حکومت والدین کو ہر بچے کی پیدائش پر مالی مدد اس وقت تک فراہم کرتی ہے جب تک کہ بچہ 20 سال کی عمر کو نہ پہنچ جائے۔ اس کے علاوہ 2007 سے اب تک حکومت ہر بچے کی پیدائش کے بعد پہلے 14 ماہ تک والدین میں سے ایک کو زچگی کے بعد کے عرصے کے دوران دی گئی رخصت پر ماہانہ تنخواہ کا ایک حصہ بھی ادا کرتی ہے۔ اس کے باوجود اب تک کم شرح پیدائش کی ایک بڑی وجہ ایسی خواتین کو درپیش مسائل کا حل تلاش کرنا ہے، جو بیک وقت کام بھی کرنا چاہتی ہیں اور اپنے بچوں کی پرورش کا مشکل کام بھی۔

رپورٹ: اینڈریو بوئن / عنبرین فاطمہ

ادارت: مقبول ملک

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں