1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمنی اور بھارت کے معذور افراد پر ایک نظر

9 ستمبر 2009

معذور افراد دنیا کے کسی بھی خطّے میں ہوں اور ان کا تعلق کسی بھی معاشرے سے ہو، زندگی کا ہر دن اُن کے لئے کسی جنگ سے کم نہیں ہوتا۔

https://p.dw.com/p/JYwi
تصویر: AP

جرمنی میں جسمانی معذوری کے شکار افراد کو بہت زیادہ سہولتیں میسر ہیں لیکن بھارت میں صورتحال مختلف ہے۔

جرمنی کی کل آبادی اس وقت تقریباً بیاسی ملین یعنی آٹھ کروڑ بیس لاکھ ہے۔ اس آبادی کا نصف سے بھی زیادہ حصّہ خواتین پر مشتمل ہے۔ جرمنی میں رجسٹرڈ معذور افراد کی تعداد تقریباً آٹھ اعشاریہ چھہ ملین ہے۔ مطلب یہ کہ یہاں ہر دسواں شخص کسی نہ کسی قسم کی معذوری کا شکار ہے۔ وفاقی جرمن محکمہ شماریات کے آخری سروے کے مطابق یہاں ہر دسواں شخص کسی نہ کسی طرح معذوری کا شکار ہے۔ یہ سروے سن دو ہزار پانچ میں کیا گیا۔

Deutschland Tarifvertrag Verkehr Bahn Deutsche Bahn rote Licht
جرمن ریلوے ڈوئچے بان نے معذور افراد کے لئے بہت ساری سہولیات میسر رکھی ہیںتصویر: AP

بھارت میں معذور افراد کی مشکلات اور انہیں فراہم سہولیات کے بارے میں ’’ڈیسیبلڈ رائٹس گروپ‘‘ کے کنوینر جاوید عابدی کہتے ہیں کہ صورتحال حوصلہ افزاء نہیں ہے تاہم آہستہ آہستہ بہتری کی طرف کام جاری ہے۔ امریکہ سے تعلیم حاصل کرنے والے جاوید عابدی خود بھی معذوری کے شکار ہی‍ں اور ویل چیئر کا استعمال کرتے ہیں۔

عابدی سن 2004ء کے لوک سبھا انتخابات میں آزاد امیدوار کی حیثیت سے چناوٴ میدان میں بھی کود پڑے۔ عابدی کہتے ہیں:’’بھارت میں پہلے تو کچھ بھی نہیں تھا لیکن1995ء میں ایک قانون آیا جس میں معذور افراد کو بہت سارے حقوق دئے گئے۔ ہم یہ بھی نہیں کہہ سکتے ہیں کہ بالکل کچھ بھی نہیں ہوا اور یہ بھی نہیں کہ سب کچھ ٹھیک ہے۔‘‘

آخر معذور کس شخص کو کہا جا سکتا ہے؟

ماہرین کے مطابق معذوری جسمانی، ذہنی اور روحانی ہوسکتی ہے۔ ہر وہ شخص جس کے لئے عارضی نہیں بلکہ مستقل بنیادوں پر عام کاروبار زندگی میں حصّہ لینا محدود بن جائے، اسے معذور کہا جاتا ہے۔ ڈاکٹرز کے مطابق زیادہ تر واقعات میں معذوری کسی بیماری کا نتیجہ ہے۔

جرمنی میں چار فی صد افراد ایسے ہیں جو پیدائیشی معذور ہیں جبکہ دو فی صد ایسے جو کسی حادثے کے نتیجے میں یا اپنے پیشے کی وجہ سے معذور ہوئے۔ یہاں سب سے بڑی تعداد ان افراد کی ہے، جو جسمانی طور پر معذور ہیں، 64 فی صد۔

Rollstuhlfahrer im Stadion
جرمن آئین کے مطابق معذور افراد کو باقی شہریوں کی طرح ہی تعلیم کے حق کے ساتھ ساتھ پیشہ کے انتخاب کا آزادانہ حق بھی حاصل ہےتصویر: picture-alliance/dpa

معذور افراد کے لئے سہولیات اور ان کے حقوق سے متعلق جرمن آئین کیا کہتا ہے؟

جرمن آئین میں صاف طور پر کہا گیا ہے کہ معذوری کے شکار افراد کو بھرپور سہولت فراہم کی جانی چاہیے۔ زندگی کے تمام شعبوں میں ان افراد کی شراکت کو یقینی بنایا جانا چاہیے۔ یعنی انہیں ہر شہری کی طرح تعلیم کے حق کے ساتھ ساتھ پیشہ کے انتخاب کا آزادانہ حق بھی حاصل ہے۔

سہولیات:

جرمنی میں معذور افراد کے لئے خصوصی اسکول بھی ہیں۔ تیس سال پہلے تک صورتحال ایسی تھی کہ تمام ہی معذور افراد انہی اسپیشل اسکولوں میں پڑھتے تھے۔ پھر Integrative Learning پروگرام کے تحت معذور اور صحت مند، دونوں کو ایک ساتھ پڑھایا جانے لگا۔ لیکن صرف دس فی صد معذور بچّے ہی Integrative Learning اسکولوں میں پڑھتے ہیں جبکہ نوے فی صد معذور بچّے ابھی بھی خصوصی اسکولوں میں ہی زیر تعلیم ہیں۔

Welt Behinderten Tag - New Delhi
بھارت میں معذور افراد کے مسائل کے حوالے سے آگہی پیدا کرنے کی ایک فنکارانہ کاوشتصویر: AP

ناروے اور اٹلی جیسی یورپی ریاستوں میں تمام ہی معذور بچّے صحت مند بچّوں کے ساتھ ایک ہی اسکولوں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں۔

جرمنی کی بسوں اور ریل گاڑیوں میں بھی معذور افراد کے لئے خصوصی سیٹیں مختص ہیں۔ معذور افراد کو ٹرین یا بس کے اندر پہنچانے کے لئے بھی خاص انتظام ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ ان کی گاڑیوں کے لئے پارکنگ بالکل مفت ہوتی ہے۔

بھارت میں اس حوالے سے صورتحال بہت مختلف ہے۔ جاوید عابدی کے مطابق ابھی تک صرف نئی دہلی، کولکتہ، بنگلور اور ممبئی جیسے بڑے شہروں میں ہی بسوں اور ٹرینوں میں معذور افراد کے لئے کچھ نشستیں مختص ہیں لیکن چھوٹے شہروں اور دیہات میں اس حوالے سے ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔

جرمنی میں ہر پانچواں معذور شخص کسی نہ کسی پیشے سے وابستہ ہے۔ معذور افراد کا ستر فی صد پینشن کی عمر کو پہنچ چکے ہیں، یعنی ان کی عمریں پچپن سال سے اوپر ہے۔ یہاں تین لاکھ افراد ویل چیئر کا استعمال کرتے ہیں اور چار اعشاریہ پانچ ملین معذور ایسے ہیں جو جزوی یا مکمل طور پر نابینا ہیں۔

تحریر: گوہر نذیر گیلانی

ادارت: امجد علی