’جج کو ہم نے مارا‘، پاکستانی طالبان
6 اگست 2015نیوز ایجنسی روئٹرز نے پاکستانی شہر ڈیرہ اسماعیل خان سے اپنی ایک رپورٹ میں طالبان کی جانب سے جاری ہونے والے ایک بیان کی تفصیلات بتائی ہیں۔ طالبان کے ترجمان محمد خراسانی کی جانب سے جاری کردہ اس بیان میں کہا گیا ہے:’’ہماری اسپیشل ٹاسک فورس نے کامیابی کے ساتھ راولپنڈی میں ایڈیشنل سیشن جج طاہر خان نیازی کو نشانہ بنایا ہے۔‘‘
راولپنڈی کی سیشن کورٹ میں کلرک کے طور پر کام کرنے والے عبدالحفیظ نے روئٹرز سے باتیں کرتے ہوئے اس امر کی تصدیق کی کہ بدھ کو طاہر خان نیازی کو قتل کر دیا گیا تھا:’’کچھ لوگ اُن کے گھر پر گئے اور اُن پر فائرنگ کر دی۔‘‘
روئٹرز کے مطابق مجرموں کو سزا دینے کے عدالتی نظام کے لیے کام کرنے والے شہریوں پر حملوں کے سلسلے کا یہ تازہ ترین واقعہ ہے۔
جرائم پیشہ گروہوں، فرقہ وارانہ عسکریت پسندوں اور طالبان کی بغاوت نے ایٹمی طاقت پاکستان کی اُنیس کروڑ کی آبادی کا ناک میں دم کر رکھا ہے۔ سویلین ججوں اور وکلاء کے خلاف دھمکیوں اور حملوں ہی کی وجہ سے حکومت نے اس سال مشتبہ عسکریت پسندوں کے خلاف مقدمات کی سماعت کے لیے فوجی عدالتوں کا نظام متعارف کروایا تھا۔ فوجی عدالتیں قائم کرنے کا فیصلہ گزشتہ سال دسمبر میں پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر طالبان عسکریت پسندوں کے ایک حملے میں 134 بچوں کی ہلاکت کے بعد کیا گیا تھا۔
حکومت کا موقف یہ ہے کہ عسکریت پسندوں کو عموماً رہائی مل جاتی ہے کیونکہ سویلین جج اُنہیں سزا سنانے سے ڈرتے ہیں۔ جج اور وکلاء اس بات کا تو اعتراف کرتے ہیں کہ سلامتی یقیناً ایک مسئلہ ہے لیکن ساتھ ہی وہ اس بات کی بھی شکایت کرتے ہیں کہ مروجہ قوانین فروسودہ ہو چکے ہیں، پولیس کی تربیت ناقص ہے، پولیس کی تنخواہیں بہت کم ہیں اور یہ کہ سیاستدان عدلیہ کی کارروائی میں مداخلت کرتے ہیں۔
حقوقِ انسانی کے علمبردار بین الاقوامی گروپ ہیومن رائٹس واچ کی پاکستانی شاخ کے نمائندے سروپ اعجاز کے مطابق مجرموں کو سزا دینے کا عدالتی نظام ایک عرصے سے نظر انداز ہو رہا ہے اور پاکستانی حکومت کو اس نظام میں فوری طور پر اصلاحات متعارف کروانی چاہییں۔ سروپ اعجاز نے روئٹرز سے بامتیں کرتے ہوئے کہا کہ ابھی حکومت کی طرف سے اس طرح کا کوئی قدم اٹھائے جانے کے امکانات نظر نہیں آتے۔