جامعہ الازہر کے مفتی طنطاوی کا انتقال
11 مارچ 2010طنطاوی کو اس وقت دل کا دورہ پڑا جب وہ قاہرہ واپسی کے لئے طیارے میں سوار ہونے والے تھے۔ مرحوم شیخ طنطاوی کے بیٹے امر طنطاوی کے بقول وہ اپنے والد کی تدفین مدینہ منورہ میں ہی کریں گے۔ سعودی خبررساں ادارے کے مطابق مدینہ میں شیخ طنطاوی کی نماز جنازہ میں سعودی حکام اور مصری سفارتی عملے سمیت متعدد افراد شریک ہوئے۔
جرمنی میں زیر علاج مصری صدر حسنی مبارک نے مفتی طنطاوی کی وفات پر افسوس ظاہر کرتے ہوئے انہیں معزز ترین عالم اور اسلام میں اعتدال پسندی، روشن خیالی اور معافی کے پہلو کا پرچار کرنے والے شخص کے طور پر یاد کیا۔
امریکہ نے الازہر یونیورسٹی کے مرحوم شیخ طنطاوی کو عقیدہ اور رواداری کی آواز قرار دیا اور عالمی طور پر باہمی عزت واحترام کے فروغ میں ان کی کوششوں کو سراہا۔ مرحوم طنطاوی 1996ء میں دسویں صدی کی جامعہ الازہر کے سربراہ منتخب کئے گئے تھے۔ ان کی وفات پر جامعہ الازہر سے جاری کئے گئے بیان کے مطابق اسلامی و عرب دنیا ایسے عالم سے محروم ہوگئی ہے جس نے اپنی زندگی اسلام کے فروغ کے لئے وقف کررکھی تھی۔
نرم لب و لہجے کے حامل مرحوم شیخ طنطاوی ہمیشہ ہی روایتی سفید پگڑی پہنے نظر آتے تھے۔ ان پر یہ الزامات بھی لگائے جاتے ہیں کہ وہ الازہر کے کمزور ترین سربراہ رہے جنہوں نے ہمیشہ خود کو حکومتی ملازم سمجھا اور حکومتی پالیسی کے مطابق بات کی۔
خواتین کے پردے، خواتین کی امامت، خودکش حملوں اور اسقاط حمل سے متعلق ان کے فتووں پر بہت تنقید کی گئی۔ طنطاوی نے گزشتہ سال الازہر سے منسلک اسکولوں میں مرد اساتذہ کی غیر موجودگی میں طالبات کے نقاب پہننے پر پابندی عائد کردی تھی۔ 2003ء میں مرحوم مفتی نے خودکش حملہ آوروں کو اسلام کا دشمن قرار دیا تھا اور اسامہ بن لادن کی جانب سے مغربی دنیا کے خلاف جہاد کے اعلان کی مذمت کی تھی۔
رپورٹ : شادی خان سیف
ادارت : کشور مصطفیٰ