جاسوسی کی دنیا ’دوست کوئی نہیں‘
15 اکتوبر 2015ذرائع ابلاغ کی رپورٹوں کے مطابق جرمن خفیہ ادارے ’بی این ڈی‘ نے 2013ء تک سفارت خانوں اور یورپی محکموں کے علاوہ دیگر ساتھی ممالک کی جاسوسی کی ہے۔ جریدے ڈیئر اشپیگل نے بدھ کی شام اپنی آن لائن رپورٹ میں لکھا ہے کہ بی این ڈی نے فرانسیسی اور امریکی محکموں تک کی خفیہ طور پر نگرانی کی ہے۔ اشپیگل اور آر بی بی نامی ایک ریڈیو نے اپنی رپورٹس میں لکھا ہے کہ بنڈش ناخرشٹن ڈینسٹ ’بی این ڈی‘ نے جاسوسی میں صرف این ایس اے کی فہرست کی پیروی نہیں کی بلکہ بی این ڈی نے اس سلسلے میں کچھ اپنی اصلاحات بھی استعمال کی تھیں۔ بتایا گیا ہے کہ بی این ڈی کی طرف سے اس جاسوسی کا مقصد بحران زدہ ممالک کے بارے میں معلومات اکٹھا کرنا تھا۔
خفیہ نگرانی کے ان نئے واقعات کے منظر عام پر آنے کے بعد برلن حکومت کی طرف سے وفاقی پارلیمان کی ایک نگران کمیٹی کو باقاعدہ طور پر آگاہ کر دیا گیا ہے۔ ذرائع ابلاغ کی رپوٹس کے مطابق پارلیمانی کمیٹی اب اگلے ہفتے بدھ کے روز اپنے کچھ ارکان کو بی این ڈی کے مرکزی دفتر بھیجے گی تاکہ اس بات کا پتا لگایا جا سکے کہ جاسوسی کے لیے کون کون سی اصلاحات استعمال کی گئی ہیں اور کن کن اداروں کی نگرانی کی گئی ہے۔ ساتھ ہی یہ ارکان بی این ڈی کے اہلکاروں سے بھی بات چیت کریں گے۔ ڈیئر اشپیگل کے مطابق اس سلسلے میں اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی کوشش بھی کی جائے گی کہ خلاف قانون اس کارروائی کا کس کس کو علم تھا اور کس کے ایماء پر ایسا کیا گیا۔
رواں سال کے آغاز میں بی این ڈی پر یہ الزامات بھی عائد کیے گئے تھے کہ اس نے قومی سلامتی کے امریکی ادارے ’ این ایس اے‘ کے کہنے پر یورپی سیاستدانوں اور کمپنیوں کی جاسوسی کی تھی۔ اس کا پس منظر ان دونوں خفیہ اداروں کے مابین 2002ء میں طے پانے والا وہ معاہدہ تھا، جس کے بعد بی این ڈی نے بحران زدہ ممالک صومالیہ اور افغانستان میں سیٹیلائٹ کمیونیکشن کی نگرانی میں این ایس اے کا ساتھ دیا تھا۔