1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

تلور کا شکار: پابندی ختم کی جائے، پاکستانی حکومت

افسر اعوان12 نومبر 2015

پاکستانی حکومت نے ملکی سپریم کورٹ سے اپیل کی ہے کہ وہ تلور کے شکار پر لگائی جانے والی پابندی سے متعلق اپنے حکام پر نظر ثانی کرے۔ حکومت کا مؤقف ہے کہ محدود شکار اس نایاب پرندے کی نسل کو بچانے میں مدد گار ثابت ہو سکتا ہے۔

https://p.dw.com/p/1H4hH
تصویر: picture-alliance/Arco Images

خلیجی اور عرب ممالک کے امیر اور حکمران طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد ہر موسم سرما میں پاکستان کے جنوب مغربی صوبہ بلوچستان میں اور صوبہ پنجاب کے جنوبی حصے میں واقع صحرا چولستان کا رُخ کرتے ہیں۔ یہ عرب امرا معدومیت کے خطرے سے دو چار پرندے تلور کا شکار کرتے ہیں جس کا طبیعاتی نام ہوبارا بسٹرڈ ہے۔ اس مقصد کے لیے یہ عرب اپنے ساتھ شکار کرنے والے باز لاتے ہیں۔ مسلسل کئی دہائیوں سے جاری اس شکار پر ملک بھر میں تحفظات کا اظہار کیا جاتا رہا ہے جس کی وجہ اس پرندے کی تعداد میں تیزی سے ہوتی ہوئی کمی ہے۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اس مسئلے کی وجہ سے پاکستان اور اس کے عرب اتحادی ممالک کے درمیان تعلقات بھی کشیدہ ہوئے خاص طور پر سعودی عرب کے ساتھ۔ رواں برس اگست میں پاکستانی سپریم کورٹ نے ملک میں تلور کے شکار پر پابندی عائد کر دی۔ پابندی کے اس فیصلے کو جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے کام کرنے والوں کی طرف سے خوب سراہا گیا تھا۔

تاہم پاکستان کی وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے سپریم کورٹ سے استدعا کی ہے کہ وہ اپنے اس فیصلے پر نظر ثانی کرے۔ پاکستان کے ڈپٹی اٹارنی جنرل امیر رحمان کا عدالت میں دلائل دیتے ہوئے کہنا تھا کہ محدود شکار اس پرندے کی نسل کو ’تحفظ دینے کا طریقہ ہے، لہذا اس کی اجازت دی جائے۔‘‘ امیر رحمان کا چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں تین رُکنی بینچ کے سامنے دلائل میں مزید کہنا تھا، ’’کمیونٹیز کے معاشی مفادات کو تحفظ دیے بغیر بچاؤ کی کوششیں کامیاب نہیں ہو سکتیں۔‘‘

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ عدالت نے فیصلہ دیتے ہوئے حکومت کی طرف سے پیش کردہ سائنسی شواہد پر غور نہیں کیا اور نہ ہی تلور کی اجازت دینے والے صوبائی قوانین کو مد نظر رکھا ہے۔ تاہم ججوں کے پینل کے ایک رکن قاضی فیض عیسیٰ کا کہنا تھا کہ حکومتی فیصلہ اس پرندے کے جلد خاتمے کی وجہ بنے گا۔ ان کا کہنا تھا، ’’آپ پاکستان کو ایک صحرا میں بدلنا چاہتے ہیں۔‘‘ انہوں نے سوال کیا، ’’کیا وہ یہ (شکار) اپنے ملک میں نہیں کر سکتے؟‘‘ ان کا اشارہ عرب شیخوں کی طرف تھا جو ہر سال اس پرندے کے شکار کے لیے پاکستان کا رُخ کرتے ہیں۔

عرب امرا ہر سال شکار کرنے کرنے والے بازوں کے ساتھ تلور کا شکار کرنے پاکستان پہنچتے ہیں
عرب امرا ہر سال شکار کرنے کرنے والے بازوں کے ساتھ تلور کا شکار کرنے پاکستان پہنچتے ہیںتصویر: Getty Images/Afp/Karim Sahib

عدالت عالیہ نے اس معاملے کی سماعت تین ہفتوں کے لیے مؤخر کردی اور امیر رحمان سے کہا کہ وہ اگلی پیشی پر حکومت کی طرف سے اس پرندے کو بچانے کے لیے کی جانے والی کوششوں اور اس کی آبادی کے بارے میں مزید تفصیلات ساتھ لائیں۔

’انٹرنیشنل یونین فار کنزوریشن آف نیچر‘ نے ہوبارا بسٹرڈ کو اپنی ’سرخ فہرست‘ میں شامل کر رکھا ہے۔ اس فہرست میں موجود جاندار نابود ہونے کے خطرے سے دوچار ہیں۔ اس ادارے کے مطابق دنیا بھر میں اس پرندے کی آبادی اب صرف 97000 رہ گئی ہے۔

بلوچستان کی ہائی کورٹ نے گزشتہ برس نومبر میں اپنے صوبے میں دیے جانے والے تلور کے شکار کے تمام پرمٹ منسوخ کر دیے تھے تاہم وفاقی حکومت کی جانب سے جس کی سربراہی سعودی حکمرانوں کے قریبی دوست سمجھے جانے والے نواز شریف کرتے ہیں، ایسے لائسنس دیے جانے کا سلسلہ جاری رکھا گیا۔