1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ترکی: ڈرامائی تبدیلیاں، وزیراعظم کا مستعفی ہونے کا اعلان

امتیاز احمد5 مئی 2016

ترک وزیر اعظم احمد داؤد اولُو نے دو ہفتے بعد وزارت عظمیٰ اور حکمران جماعت اے کے پی کی قیادت سے مستعفی ہونے کا اعلان کر دیا ہے جب کہ اقتدار پر ترک صدر ایردوآن کی گرفت اور مستحکم ہوتی نظر آ رہی ہے۔

https://p.dw.com/p/1IirK
Türkei Premierminister Ahmet Davutoglu Ankündigung Rücktritt
تصویر: Reuters/U. Bektas

ترک صدر رجب طیب ایردوآن اور وزیر اعظم احمد داؤد اولُو کے درمیان اختلافات کی خبریں گزشتہ کئی مہینوں سے گردش کر رہی تھیں تاہم یہ اختلافات کل بدھ کے روز اس وقت کھل کر سامنے آ گئے، جب دونوں رہنماؤں کے درمیان انقرہ میں صدارتی محل میں ہنگامی بات چیت ہوئی اور یہ دونوں رہنما کسی نتیجے پر پہنچنے میں ناکام رہے۔

سن دو ہزار دو سے برسر اقتدار اس جماعت کی مرکزی ایگزیکٹو کمیٹی کے اجلاس کے بعد احمد داؤد اولو کا کہنا تھا کہ بائیس مئی کو حکمران جماعت ’ اے کے پی‘ کا ایک غیر معمولی اجلاس ہوگا اور وہ اس میں پارٹی کے قیادت کے امیدوار نہیں ہوں گے۔ ان کے بقول دوستوں اور صدر رجیب طیب ایردوآن سے مشورہ کرنے کے بعد ہی انہوں نے یہ فیصلہ کیا ہے تا کہ جماعت کی صفوں میں اتحاد برقرار رہے۔ اے کے پی کے ضوابط کے مطابق پارٹی کا چیئر مین ہی حکومت کا سربراہ بھی ہو گا۔

Türkei Präsident Erdogan und Premierminster Davutoglu
ترک صدر رجب طیب ایردوآن اور وزیر اعظم احمد داؤد اولُو کے درمیان اختلافات کی خبریں گزشتہ کئی مہینوں سے گردش کر رہی تھیںتصویر: Reuters/M. Cetinmuhurdar/Presidential Palace

ستاون سالہ اولو دو سال قبل ایردوآن کی جگہ ان دونوں عہدوں پر فائز ہوئے تھے۔ تاہم اس کے باوجود بھی حکومت اور پارٹی کی باگ ڈور ایردوآن کے ہی ہاتھ میں تھی۔ ابھی گزشتہ ہفتے ہی اے کے پی نے پارٹی کے سربراہ اور وزیر اعظم کے اختیارات میں کمی کرنے کا فیصلہ کیا تھا، جسے داؤد اولو کے لیے ایک شکست قرار دیا جا رہا تھا۔ تازہ حالات میں ترکی میں اقتدار پر صدر رجب طیب ایردوآن کی گرفت اور مستحکم ہوتی نظر آ رہی ہے۔

دوسری جانب احمد داؤد اولو نے عندیہ دیا ہے کہ وہ جماعت کی رکنیت سے مستعفی نہیں ہوں گے بلکہ جماعت میں رہتے ہوئے ہی وہ اس میں قانون سازی کی کوشش کریں گے۔ اس موقع پر انہوں نے ایک مرتبہ پھر صدر ایردوآن سے وفاداری کرنے کا عندیہ دیا اور کہا کہ صدر کی عزت ان کی عزت ہے اور وہ کسی بھی ایسی کوشش کا حصہ نہیں بنیں گے، جس کے تحت پارٹی میں تفرقہ پیدا ہو۔ اولو کا کہنا تھا، ’’مجھے نہ تو کسی کے خلاف غصہ ہے اور نہ ہی میں کسی کو ملامت کروں گا۔ آج تک کسی نے میرے منہ سے صدر کے خلاف کوئی بات نہیں سنی اور مستقبل میں بھی کوئی نہیں سنے گا۔‘‘

سن دو ہزار چودہ میں ترک صدر ہی نے داؤد اولو کو وزیراعظم اور پارٹی کا سربراہ چُنا تھا۔ تجزیہ کاروں کے مطابق سابق پروفیسر، سابق وزیر خارجہ اور ایردوآن کے مشیر داؤد اولو بہت سے معاملات میں آزادانہ فیصلے کرنا چاہتے تھے، جو ان کے مستعفی ہونے کا باعث بنے۔

ترک میڈیا کے مطابق صدر اور وزیراعظم کے مابین سب سے پہلے اختلاف کرد عسکریت پسندوں کے معاملے پر ہوا۔ وزیراعظم چاہتے تھے کہ ان جنگجوؤں کے ساتھ امن مذاکرات کا سلسلہ دوبارہ شروع کیا جائے۔ اس کے علاوہ ایردوآن ملک میں صدارتی نظام متعارف کروانا چاہتے ہیں اور اس معاملے میں بھی انہیں وزیراعظم کی مکمل حمایت حاصل نہیں تھی۔