ترکی: فوجی عدالتوں کے خاتمے کا قانون منظور
28 جون 2009ترک پارلیمنٹ نے ملک کے اندر قائم فوجی عدالتوں کے خاتمے کے قانون کی منظوری دے دی ہے۔ اِن عدالتوں کے خاتمے کا یورپی یونین کی جانب سے مطالبہ کافی عرصے سے کیا جا رہا تھا۔ حقیقت میں ترکی کے یورپی یونین میں شمولیت کی راہ میں اور رکاوٹوں میں ایک یہ بھی تصور کی جاتی تھی۔ موجودہ قانون سازی ترکی کے فوجداری قوانین میں انتہائی اہم گردانی جا رہی ہے۔
ترکی کی حکمران جماعت کی بھرپور کوشش ہے کہ وہ جلد از جلد یورپی یونین کی ڈیمانڈ کی مطلوبہ فہرست کو مکمل کر لے تا کہ اُس کے یورپی یونین میں شمولیت کے امکانات واضح ہو سکیں۔ اِس مناسبت سے فریقین کے درمیان مسلسل بات چیت کا عمل جاری ہے۔ یورپ کے کئی اہم ملک ترکی کے یورپی یونین میں شمولیت کی مخالفت بھی کر رہے ہیں۔
دوسری جانب ترکی کے اندر سیاسی اور انسانی حقوق کے تجزیہ کار یہ کہتے ہیں کہ اِس نئی دستوری پیش رفت سے ترکی کے اندر حکمران جماعت اور با اثر فوج کے درمیان نئی محاذ آرائی شروع ہو سکتی ہے۔ دونوں کے درمیان تعلُقات پہلے سے ہی کشیدہ چلے آ رہے ہیں۔
فوجی عدالتوں کے خاتمے کے قانون کی پارلیمنٹ میں کچھ جلدی میں منظوری لی گئی۔ پارلیمنٹ میں حکمران جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی کو اکثریت حاصل ہے۔ وزیر اعظم رجب طیب ایردوہان کی سیاسی جماعت کو ترکی کی اشرافیہ اور مخصوص سینئر فوجی حلقے ایک مذہبی جماعت سمجھتے ہوئےاِس کی جڑیں ایک کالعدم مذہبی سیاسی جماعت سے نتھی کرتے ہیں۔ اِن کا مزید کہنا ہے کہ ایردوہان کی جماعت ترکی کے سیکولر تشخص کو مختلف حیلے بہانوں سے ختم کرنے کی کوشش میں ہے۔ جب کہ وزیر اعظم کی سیاسی جماعت کے لیڈران اِس الزام کی تردید کرتے ہیں۔
اِس بل کی منظوری کے بعد اب سول عدالتوں کے قیام کی راہ ہموار ہو گئی ہے۔ اِن میں فوج کے ملازمین کے مقدمات پیش کئے جائیں گے۔ اِس کے علاوہ ملکی سلامتی کے حوالے سے مختلف اشخاص پر چلائے جانے والے مقدمات بھی سنے جائیں گے۔ اِنہی سول عدالتوں میں منظم جرائم کے علاوہ دستوری خلاف ورزیوں کی شنوائی ہو گی۔ امن کے دوران ملٹری پینل کوڈ کے تحت قائم کئے جانے والے مقدمات بھی نئے قانون کے تحت معرضِ وجُود میں آنے والی عدالتوں میں منتقل کر دیئے جائیں گے۔
تازہ قانون سازی اُس وقت سامنے آئی ہے جب حکومتی حلقوں میں اُس مبینہ فوجی منصوبے کی گونج بدستور سنائی دے رہی ہے جو سیاسی حکومت کی ساکھ کو خراب کرنے کے حوالے سے بنایا گیا تھا۔ فوج کی جانب سے اِس رپورٹ یا پلان کے بنائے جانے کی واشگاف انداز میں تردید سامنے آئی ہے۔ فوج نے اِس ضمن میں سامنے لائی جانے والی تمام دستاویزات کو من گھڑت اور فرضی قرار دیا ہے۔ ترک فوج کے چیف آف سٹاف Ilker Basbug نے بھی کہا ہے کہ دستاویزات مسلح افواج کی کردار کُشی کی مہم کا حصہ ہیں۔
اِس منصوبے میں کئی ریٹائزڈ فوجی افسران کے ملوث ہونے کا شبہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔ حکومتی حلقے اِس پلان کو ترکی کے اندر سیاسی انتشار پیدا کا ایک منصوبہ سمجھ رہے ہیں۔ فوج کے ایک پراسیکیوٹر کے مطابق فراہم کی گئی معلُومات ناکافی ہے اور اِن کی روشنی میں کسی مقدمے کی شروعات کا کوئی امکان نہیں ہے۔ نئی قانون کی منظوری کے بعد وزیر اعظم رجب طیب ایردوہان نے کہا ہے کہ اب اِس معاملے کی چھان بین سویلیئن پراسیکیوٹر کریں گے۔