1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

تبت پر چین کے قبضے کی نصف صدی

افتخار گیلانی، نئی دہلی28 مارچ 2009

اٹھائیس مارچ کو تبّت پر چین کے قبضے کی نصف صدی مکمل ہوگئی ہے۔ اس دن کو چین میں ’تبّت کی آزادی‘ کے طور پر منایا جا رہا ہے جب کہ تبّتی رہنما اس کو چین کے قبضے کے طور پر یاد کر رہی ہے۔

https://p.dw.com/p/HLl6
بھارتی شہر دھرم شالہ میں تبّت پر چینی قبضے کے خلاف مظاہرے ہوئےتصویر: AP

چین کے قبضہ والے تبت میں سرکاری طور پر چھٹی کا اعلان کیا گیا ہے۔آج ہی کے دن 1959 میں تبت پر چین کی براہ راست حکومت کا آغاز ہوا تھا۔ چین کا دعوی ہے کہ اس نےتبتیوں کو تاریکی اور عہدہ وسطی کی غلامی کیزندگی سے آزادی دلائی جس کے بعد تبت کی خوشحالی کا دور شروع ہوا ۔دوسری جانب تبت کی آزادی کے لئے سرگرم تنظیموں نے اسےایک جھوٹا پرزوپگینڈا قرار دےا ہے اور کہا کہ یہ دن دراصل تیتیوں پرچین کے ظلم وزیادتی کی پچاسویں برسی ہے۔

Bundeskanzlerin Angela Merkel empfängt am Sonntag, 23. Sept. 2007, im Bundeskanzleramt in Berlin den Dalai Lama
جرمن چانسلر انگیلا میرکل اور دلائی لاماتصویر: AP

ان کا کہنا ہے کہ پچاس سال پہلے چین کیزیادتیوں اور ظلم و جبر کا جو سلسلہ شروع ہوا تھا وہ اب بھی جاری ہے۔ ان تنظیموں نے اس کے خلاف بھارت کے کئی شہروں اور بالخصوص تبتی جلاوطن حکومت کے مرکز دھرمشالہ میں کئی پروگرام منعقد کئے ۔


اسٹوڈنٹس فار فری تبت کی ترجمان ڈاکٹر بی زیرنگ نے اس دن کے حوالے سے ڈوئچے وےلے کے ساتھ دھر م شالہ سےٹیلی فون پر بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ آج کے دن ہی 1959میں ان کے روحانی پیشوا دلائی لاما کو چینی حکومت کی زیادتیوں کی وجہ سے تبت چھوڑ کر بھارت آنا پڑا اور چین نے تبت کی آزاد حکومت کو معزول کردیا۔ چین کہتا ہےکہ اس نے تبت کو آزادی دلائی لیکن دراصل اسی دن چین نے تبت کو غلام بنالی۔

Tibet China Aufstand 1959 Wiederstand in den Bergen
پچاس سال قبل چینی افواج تبّت میں داخل ہوئی تھیںتصویر: picture-alliance/ dpa

ڈاکٹر زیرنگ نے کہا کہ 1959 کے بعد سے آج تک ایک ملین سے زیادہ تبتی مارے جاچکے ہیں جب کہ ہزاروں قیدوبند کی زندگی گذارنے کے لئے مجبورہیں۔ انہوں نے کہا کہ تبتیوں کے مذہبی اور ثقافتی مقامات کو تباہ کردیا گیا ہے۔ ’’ پچاس سال بعد بھی ہمارے لوگوں کو اپنے حقوق کے لئے آواز اٹھانے کی آزادی نہیں ہے حتی کہ کسی کے خلاف پولیس کی زیادتیوں پر کوئی آواز اٹھاتا ہے تو اسے بغاوت کہا جاتا ہے۔ ‘‘۔

اسٹوڈنٹس فار فری تبت کی ترجمان ڈاکٹر زیرنگ نے کہا کہ تبتی اپنی آزادی کے لئے جدوجہد جاریرکھیں گے۔وہ اپنے حق کے لئے لڑتے رہےں گے اور دنیا کویہ بتاتے رہیں گے کہ چینتیتیوں کو ان کے انسانی حقوق اور آزادی سے محروم رکھنے کے لئے کس قد ر ظلم و جبر کررہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ عالمی برادری سےاپیل کرتی ہیں کہ چین کی حکومت پر دباو ڈالے تاکہتبتیوں کو آزادی مل سکے‘‘۔