تائيوان کے ليے ٹرمپ کی حمايت، چين کے ليے درد سر
31 دسمبر 2016خبر رساں ادارے روئٹرز کی چينی دارالحکومت بيجنگ سے ہفتہ اکتيس دسمبر کو موصولہ رپورٹوں کے مطابق چينی فوج کے تين قريبی ذرائع کا کہنا ہے کہ تائيوان کے خلاف سخت اقدامات زير غور ہيں۔ ممکنہ اقدامات ميں خود مختار حکومت والی ايشيائی رياست تائيوان، جسے چين اب بھی اپنا عليحدہ ہو جانے والا ايک صوبہ قرار ديتا ہے، کے خلاف اقتصادی پابندياں اور جنگی سرگرمياں شامل ہيں۔ تاحال اس بارے ميں کوئی حتمی فيصلہ نہيں کيا گيا ہے ليکن ذرائع کے مطابق تائيوان کے ليے نو منتخب امريکی صدر کی حمايت اور جزيرے کی ممکنہ آزادی ان دنوں چين کی ’پيپلز لبريشن آرمی‘ (PLA) کی اعلیٰ قيادت کے ليے بحث و مباحثے کا موضوع بنی ہوئی ہے۔ چينی حکام نے نيوز ايجنسی سے بات چيت اپنی شناخت مخفی رکھنے کی شرط پر کی۔
امريکا کی ری پبلکن جماعت سے تعلق رکھنے والے ڈونلڈ ٹرمپ بيس جنوری کے روز صدارت کا عہدہ سنبھاليں گے۔ انہوں نے تائيوان کی خاتون صدر سے اسی مہينے بذريعہ ٹيلی فون رابطہ کيا، جس سے اس بارے ميں آئندہ امريکی انتظاميہ کی پاليسی کا اندازہ لگايا جا سکتا ہے۔ اس پيش رفت کے نتيجے ميں سالہا سال سے بيجنگ حکومت کی ’ايک چين‘ پاليسی کے مستقبل پر بھی پر سواليہ نشان لگ گيا ہے۔ چين کو شبہ ہے کہ اس سبب تائيوان کی آزادی کے حمايتيوں کو قوت مل سکتی ہے۔
اس بارے ميں بات کرتے ہوئے چينی فوج کے ايک قريبی ذرائع نے کہا، ’’اگر ڈونلڈ ٹرمپ صدر کا عہدہ سنبھالنے کے بعد ’ايک چين‘ پاليسی کو چيلنج کرتے ہيں، تو يہ ہمارے ليے سرخ لکير پار کرنے کے مساوی ہو گا۔‘‘ چينی وزارت دفاع نے اس بارے ميں بات چيت کرنے يا اس حوالے سے کوئی بيان دينے سے انکار کر ديا۔ وزارت دفاع کے ايک اہلکار کا کہنا تھا کہ چين نے اپنی پوزيشن سن 2005 کے ’Anti-Succession Law‘ ميں واضح کر دی ہے، جو عليحدگی کی ممکنہ صورت ميں چين کو تائيوان کے خلاف طاقت کے استعمال کا اختيار ديتا ہے۔
دوسری جانب تائيوان کی وزارت دفاع کے ترجمان کا کہنا ہے کہ ان کا ملک چين کی جانب سے کسی بھی جارحانہ قدم کا جواب دينے کے ليے تيار ہے۔