بیمار مہاجر بچے: ڈاکٹروں کا ضمیر سرکاری مطالبات سے ٹکرا گیا
11 اکتوبر 2015سڈنی سے اتوار گیارہ اکتوبر کے روز موصولہ نیوز ایجنسی ڈی پی اے کی رپورٹوں کے مطابق غیر قانونی طور پر آسٹریلیا پہنچنے کے بعد جن ہزاروں تارکین وطن کو اب تک ملک کے مختلف حصوں میں متعدد نظر بندی مراکز میں رکھا گیا ہے، ان میں کم از کم 104 نابالغ غیر ملکی بھی شامل ہیں۔ ان سو سے زائد نابالغ تارکین وطن میں نومولود، شیر خوار بچے اور اٹھارہ سال سے کم عمر کے نوجوان لڑکے لڑکیاں سبھی شامل ہیں۔
آسٹریلوی اخبار ’سڈنی ہیرالڈ سن‘ نے آج لکھا کہ میلبورن کے رائل چلڈرن ہسپتال میں ان حراستی مراکز کے رہائشی جو بچے اس وقت زیر علاج ہیں، ان کے بارے میں امیگریشن حکام کا اُن کے معالجین سے مطالبہ تھا کہ انہیں ہسپتال سے جلد از جلد فارغ کر دیا جائے تاکہ انہیں دوبارہ نظر بندی کیمپوں میں منتقل کیا جا سکے۔
لیکن اس ہسپتال کے ڈاکٹروں نے یہ کہتے ہوئے امیگریشن حکام کے مطالبات مسترد کر دیے کہ جب تک مہاجرین اور غیر قانونی تارکین وطن کے ان بچوں کا علاج مکمل نہیں ہوتا، اور ان کی تندرستی کو یقینی نہیں بنا لیا جاتا، تب تک انہیں ہسپتال سے فارغ نہیں کیا جائے گا۔
ڈی پی اے نے لکھا ہے کہ میلبورن کے اس ہسپتال میں درجنوں ایسے نابالغ مریضوں کا علاج کیا جاتا رہا ہے، جو اپنے اہل خانہ کے ہمراہ مختلف نظر بندی کیمپوں میں مقیم تھے لیکن بیماری کے باعث علاج کے لیے اس ہسپتال میں لائے گئے۔
ان میں سے ایک بچہ تو ایسا بھی ہے، جس کی ہسپتال سے رخصتی کا امیگریشن حکام گزشتہ ایک مہینے سے بھی زیادہ عرصے سے مطالبہ کر رہے ہیں۔ لیکن ڈاکٹروں نے نہ صرف اس کم سن مریض کو چھٹی دینے سے انکار کر دیا بلکہ اب یہی جواب کئی ایسے دیگر مہاجر بچوں کے بارے میں بھی دیا جا رہا ہے، جو اسی ہسپتال میں زیر علاج ہیں۔
مختلف ذرائع سے ملنے والی رپورٹوں میں کہا گیا ہے کہ حکومت ابھی بھی اصرار کر رہی ہے کہ ان بچوں کو واپس حراستی مراکز میں پہنچنا چاہیے لیکن اب تک ڈاکٹروں کا ’ضمیر کے مطابق کیا جانے والا فیصلہ‘ سرکاری مطالبات پر حاوی رہا ہے۔ ہسپتال کے ڈاکٹروں نےاس بات پر بھی شدید غصے کا اظہار کیا ہے کہ کئی مریضوں کے کمروں کے دروازوں کے باہر امیگریشن گارڈ بھی تعینات کیے گئے ہیں۔
آسٹریلیا کے نئے لیکن سخت تر قوانین کے تحت اگر ایسے مریضوں کا علاج کرنے والے کوئی بھی ڈاکٹر یا طبی عملے کا رکن تارکین وطن کے حراستی مراکز میں مہاجرین کو درپیش حالات کے خلاف کوئی بھی بیان دے تو اسے دو سال تک قید کی سزا سنائی جا سکتی ہے۔
لیکن اس کی پرواہ نہ کرتے ہوئے سڈنی میں بچوں کے اس رائل ہسپتال کا قریب 400 رکنی عملہ ابھی تک سرکاری اہلکاروں کے مطالبات تسلیم کرنے سے نہ صرف انکاری ہے بلکہ اس ہسپتال کی طرف سے نشریاتی ادارے ABC کو آج اتوار کو دیے گئے ایک بیان میں یہ بھی کہا گیا کہ ہسپتال کے ڈاکٹر ایسے بچوں کا علاج کر رہے ہیں، جنہوں نے اپنی زندگیوں کا نصف سے زائد مختلف نظر بندی مراکز میں گزارا ہے۔
اسی ہسپتال کے بچوں کے امراض کے ایک ماہر پال مونیگل نے کہا، ’’حراستی مراکز کے بچوں میں ڈراؤنے خوابوں، برے رویے، بستر میں ہی پیشاب کر دینے، نفسیاتی بے چینی اور ڈپریشن تک کے واقعات دیکھے گئے ہیں۔ یہ اب معمول کی بات بن گئی ہے کہ یہاں لائے جانے والے حراستی مراکز کے بیمار بچوں میں ایسی طبی علامات دیکھنے میں آتی ہیں۔‘‘
آسٹریلیا نے بحرالکاہل کی چھوٹی سی جزیرہ ریاست ناؤرُو Nauru میں بھی غیر قانونی تارکین وطن کے لیے ایک حراستی کیمپ قائم کر رکھا ہے، جس کا انتظام آسٹریلیا ہی کے پاس ہے۔ اس کیمپ میں نظر بند بچوں کی تعداد 93 ہے۔