بھارت کی نچلی ذات کے مسائل آشکارا کرنے والا جریدہ
1 ستمبر 2016اکیس اگست کو بھارتی ریاست اُتر پردیش کی سابق خاتون وزیر اعلیٰ اور بہوجن سماج پارٹی (BSP) کی قائد مایا وتی نے آگرہ میں ایک جلسے سے خطاب کیا اور مین اسٹریم میڈیا کے بارے میں اپنی ناپسندیدگی کا واضح طور پر اظہار کیا۔
دلیت سیاستدان مایا وتی نے قومی سطح کے میڈیا ہاؤسز کی انتخابات سے پہلے کی اس پیشین گوئی کا خاص طور پر ذکر کیا کہ 2017ء میں ریاستی اسمبلی کے انتخابات میں BSP سبقت لیے ہوئے ہے۔ اپنے حامیوں سے مخاطب ہوتے ہوئے مایا وتی نے کہا:’’ان پیشین گوئیوں کا مقصد یہ ہے کہ آپ مطمئن ہو کر ہاتھ پر ہاتھ دھر کر بیٹھ جائیں، ایسا ہوا تو باقی جماعتوں کو فائدہ پہنچے گا۔‘‘
’دلیت دستک‘ نامی جریدے کے تینتیس سالہ ایڈیٹر اشوک داس کی رائے میں مایا وتی کی بھارتی میڈیا پر یہ تنقید بجا ہے۔ ڈی ڈبلیو سے باتیں کرتے ہوئے داس نے کہا:’’آپ اس میڈیا پر اعتبار نہیں کر سکتے۔‘‘
بھارت میں دلیت ہندوؤں کی سب سے نچلی ذات تصور کیے جاتے ہیں۔ اس کمیونٹی کے مسائل کو اُجاگر کرنے کے لیے ’دلیت دستک‘ شائع کرنے کا سلسلہ 2012ء میں شروع کیا گیا تھا۔
اگرچہ بھارتی آئین کے تحت یہ ایک قابلِ تعذیر جرم ہے، پھر بھی اونچی ذات کے ہندو اکثر دلیتوں کو استحصال کا نشانہ بناتے ہیں تاہم رفتہ رفتہ حالات بدل رہے ہیں اور اشوک داس کا نئی دہلی کے ایک کمرے کے دفتر سے نکلنے والا ماہنامہ ’دلیت دستک‘ اس کی ایک مثال ہے۔
اشوک داس نے 2006ء میں دہلی کے ایک کالج سے جرنلزم میں ڈگری لینے کے بعد سے کئی ہندو اخبارات میں کام کیا لیکن وہاں مسلسل امتیازی سلوک کا سامنا کرنے پر اُس نے دلیتوں کے لیے الگ سے ایک ویب سائٹ شروع کر دی۔
اگرچہ دلیت کمیونٹی کے مسائل کو اُجاگر کرنے والے جریدے اور بھی ہیں لیکن زیادہ تر انٹر نیٹ پر ہی ہیں۔ تقریباً دو لاکھ پچیس ہزار روپے کے ماہانہ بجٹ کے ساتھ شائع ہونے والے ’دلیت دستک‘ کی نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ اس کے نام میں ہی دلیت کا لفظ آتا ہے اور یہ کاغذ پر شائع ہو کر سامنے آتا ہے۔
پہلے سال یہ ماہنامہ دو ہزار کی تعداد میں شائع ہوا، 2016ء میں اس کی تعدادِ اشاعت تمام تر مالی مشکلات اور بڑی کمپنیوں کی طرف سے اشتہارات نہ ملنے کے باوجود پچیس ہزار تک پہنچ چکی ہے۔ اس کے فیس بُک پیج میں بھی ہر ماہ ہزارروں نئی لائیکس کا اضافہ ہو جاتا ہے۔
’دلیت دستک‘ پر اہم رپورٹوں کی اشاعت کے بعد اب مین اسٹریم میڈیا بھی دلیتوں سے متعلق خبروں کو نظر انداز نہ کرنے پر مجبور ہو گیا ہے۔