بھارت میں سیلاب، صورت حال ابھی تک نازک
4 ستمبر 2008ریاست بہار کے سیلاب سے متاثرہ علاقوں کے لاکھوں شہریوں کو شکایت ہے کہ انہیں کئی دن کسی بھی قسم کی اشیائے خوراک کے بغیر گذارہ کرنا پڑا جس دوران وہ آلودہ پانی پینے پر بھی مجبور تھے۔ بہار میں حکومت نے سیلاب سے پہلے ہی کئی علاقوں میں شہریوں کو وہاں سے نقل مکانی کے لئے کہہ دیا تھا اس سیلاب نے قریب تین ملین انسانوں کو متاثر کیا اور مجموعی طور پر تقریبا ایک سو افراد ہلاک ہوئے۔ نقل مکانی کے لئے حکومت کی جانب سے اگر پیشگی اطلاع نہ ہوتی تو اس سے کہیں زیادہ ہلاکتوں کا خدشہ تھا۔
بہار کے سیلاب زدہ علاقوں میں امدادی کارکن اب تک قریب چھ لاکھ افراد کو وہاں سے نکال چکے ہیں لیکن زیادہ تشویش کی بات یہ ہے کہ ابھی بھی انہی زیر آب علاقوں میں تین لاکھ سے زائد متاثرین ایسے ہیں جنہیں بروقت امداد نہ ملنےکی صورت میں موت کے خطرے کا سامنا بھی کرنا پڑسکتا ہے۔
بھارت کی اس ریاست میں چار سال قبل قائم کی گئی قدرتی آفات کے رد عمل میں فوری اقدامات کرسکنے والی نیشنل فورس اب تک سیلاب زدہ علاقوں میں کیا کچھ کرسکی ہے، اس بارے میں NDRF نامی اس ادارے سے تعلق رکھنےو الے راجیو آہلووالیا کہتے ہیں کہ اس فورس کے کارکنوں نے متاثرہ خطوں خاص کر دور دراز علاقوں میں ہوائی جہازوں کے ذریعے خوراک اوردیگر ضروری اشیاء گرانے کا عمل تیزتر کردیا ہے۔
اس فضائی امدادی آپریشن کی نگرانی بھارتی فضائیہ کے اعلیٰ عہدیدار کر رہے ہیں جن کا کہنا ہے کہ اب تک ایسے بے شمار شہریوں کی مدد کی جاچکی ہے جو مکمل بے سروسامانی کے عالم میں جہاں بھی ان کے لئے ممکن ہوا پناہ گزین ہو گئے تھے۔ تاہم مشرقی بہار میں سب سے زیادہ متاثر ہونے والے چاند پور بھنگاہا نامی ضلع میں بہت سے متاثرین ایسے ہیں جنہیں اتنے دن گذرنے کے باوجود آج تک اشیائے خوراک حتیٰ کہ پینے کا صاف پانی بھی مہیا نہیں کیا جاسکا۔
بھارت میں مرکزی اور بہار کی صوبائی حکومتوں کے دعووں اور متاثرین کی شکایات سے بالاتر ہوکر دیکھا جائے تو بہت سے ماہرین یہ اعتراف تو کرتے ہیں کہ سیلاب زدہ علاقوں میں بری، بحری دستے اور قدرتی آفات سے بچاؤ کے ادارے کے اہلکار اب تک مسلسل مصروف عمل تو رہے ہیں لیکن تاریخی حد تک تباہ کن قرار دیئے جانے والے ان سیلابوں سے متاثرہ لاکھوں بے گھر شہریوں کے لئے ابھی بھی بہت کچھ کیا جانا باقی ہے۔