بھارت عالمی حدت سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ملکوں میں شامل
10 جون 2013اس تحقیقی رپورٹ کے مطابق گلوبل وارمنگ کی وجہ سے ان علاقوں میں آنے والے غیر معمولی سیلابوں کی تعداد میں اضافہ ہو جائے گا جبکہ مشرقی یورپ، اسکنڈے نیویا کے بعض حصے، چلی اور ارجنٹائن میں ایسے واقعات میں کمی واقع ہوگی۔
یہ اندازے گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کے 11 مختلف ماڈلز کو مدنظر رکھتے ہوئے لگائے گئے ہیں۔ اس اسٹڈی میں دیکھا گیا ہے کہ فضا کے لیے ضرر رساں ان سبز مکانی گیسوں کی مقدار بڑھنے سےسال 2100 تک دریائی خطے رکھنے والے 29 علاقوں میں کیا تبدیلیاں رونما ہو سکتی ہے۔
ان اندازوں کے آخری حد کی صورت میں،یعنی اگر فضائی درجہ حرارت چار سے پانچ ڈگری سینٹی گریڈ تک بڑھ جاتا ہے تو ایسی صورت میں ان سیلابوں کی تعداد یا فریکوئنسی جو 20ویں صدی کے دوران ایک سو سال میں ایک مرتبہ ہے، بڑھ جائے گی۔ ایسی صورت میں ایسے سیلاب ہر 10 سے 50 برس کے دوران آنے لگیں گے۔
اس اسٹڈی میں شریک اور ٹوکیو انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے ساتھ بطور سول انجینیئر منسلک شِنجیرو کنائے کے مطابق، ’’ان علاقوں میں سے زیادہ تر اب بھی سیلابوں کے حوالے سے مشہور ہیں۔‘‘ تاہم ان کا کہنا ہے کہ اگر سال 2100ء تک عالمی حدت میں کمی واقع ہوتی ہے تو سیلابوں کے لوٹنے کے وقفے میں بھی کمی واقع ہو جائے گی۔
یہ تحقیق یونیورسٹی آف ٹوکیو کے ماہر یوکیکو ہیرابے یاشی کی سربراہی میں کی گئی اور اس کے نتائج تحقیقی جریدے ’نیچر کلائیمیٹ چینج‘ میں شائع ہوئے ہیں۔
اس اسٹڈی کے جاپانی مصنفین کے مطابق ان کے اندازوں میں اس طرح کے اقدامات کے اثرات کو شامل نہیں کیا گیا جو سیلابوں سے بچنے کے لیے کیے جا سکتے ہیں۔
اقوام متحدہ کے ارکان عالمی حدت میں صنعتی دور شروع ہونے سے قبل کی عالمی حدت کے مقابلے میں درجہ حرات میں اضافے کی حد دو ڈگری سینٹی گریڈ تک محدود کرنے کی حامی بھر چکے ہیں۔ تاہم اس وقت جس قدر کاربن کی مقدار فضا میں خارج کی جا رہی ہے اور یہ آئندہ بھی برقرار رہتی ہے تو سال 2100ء تک عالمی درجہ حرات میں یہ اضافہ چار سے پانچ ڈگری سینٹی گریڈ تک ہو چکا ہو گا۔ موسمیاتی ماہرین کے مطابق ایسی صورت میں نہ صرف اس کے حیاتیاتی تنوع کے حوالے سے تباہ کن اثرات سامنے آ سکتے ہیں بلکہ اسی وجہ سے کروڑوں لوگ بھوک، سخت موسم اور سمندروں کی سطح بڑھنے کے باعث پیدا ہونے والے خطرات کا شکار ہو جائیں گے۔
aba/ng (AFP)