1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارتی تھئیٹر کی نامور شخصیت حبیب تنویر کا انتقال

رپورٹ: امجد علی، ادارت: شامل شمس9 جون 2009

بھارتی اسٹیج کی دُنیا میں لیجنڈ کی حیثیت سے جانے پہچانے والے نامور ڈرامہ نگار اور ہدایتکار حبیب تنویر مختصر علالت کے بعد پیر آٹھ جون کی صبح بھوپال کے نیشنل ہسپتال میں انتقال کر گئے۔

https://p.dw.com/p/I5u5
سن 2006ء میں حبیب تنویر بون میں اپنے ہوٹل میں ڈوئچے ویلے کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئےتصویر: DW

حبیب تنویر کو آج منگل کے روز سپردِ خاک کیا جا رہا ہے۔ اُن کی عمر پچاسی برس تھی۔

وہ یکم ستمبر سن 1923ء کو رائے پور میں پیدا ہوئے۔ اُن کا اصل نام حبیب احمد خان تھا لیکن جب شاعری شروع کی تو اپنے نام کے ساتھ تنویر کا اضافہ کر لیا۔ وہ ایک ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے اور ڈرامہ نگاری اور اسٹیج ڈائریکشن کے ساتھ ساتھ اداکاری بھی کرتے تھے۔

Naya Theatre
حبیب تنویر کے مشہور ڈرامے ’آگرہ بازار‘ کا ایک منظرتصویر: Naya Theatre

1944ء میں مورس کالج ناگ پور سے گریجوایشن کرنے کے بعد ایم اے کے لئےعلی گڑھ یونیورسٹی میں داخلہ لیا لیکن ایک ہی سال بعد بمبئی چلے گئے اور آل انڈیا ریڈیو کے ساتھ بطور پروڈیوسر وابستہ ہو گئے۔

اِس شہر میں رہتے ہوئے اُنہوں نے کچھ ہندی فلموں کے لئے گیت بھی لکھے اور کچھ میں اداکاری بھی کی۔ وہ ترقی پسند تحریک سے بھی وابستہ رہے۔

پچاس کے عشرے میں وہ ڈرامے کی تکنیک میں تربیت کے حصول کے لئے چند برس انگلینڈ میں مقیم رہے۔ اُسی دَور میں اُنہیں جرمن شہر برلن میں قیام کا موقع ملا، جہاں اُنہوں نے ممتاز جرمن ڈرامہ نگار بیرتھولٹ بریشت کے کئی ڈرامے دیکھے۔ یہ بریشت کے انتقال کے کچھ ہی عرصہ بعد کی بات ہے۔ بریشت نے اُن کے فن پر گہرے اثرات مرتب کئے۔

Habib Tanvir
حبیب تنویر بون میں ’’آگرہ بازار‘‘ کی پیشکش کے بعد حاضرین کی داد وصول کرتے ہوئےتصویر: DW

اُنہوں نے 1954ء ہی میں ’’آگرہ بازار‘‘ کے نام سے ایک اسٹیج ڈرامہ لکھا تھا، جس میں کلاسیکی دور کے ممتاز شاعر نظیر اکبر آبادی کو خراج تحسین پیش کیا گیا تھا۔ حبیب تنویر نے اپنے اِس ڈرامے کے ساتھ سن 2006ء میں جرمن شہر بون میں منعقدہ بھارتی ثقافتی ہفتے کی تقریبات میں شرکت کی۔ اِس موقع پر اِس ڈرامے کے درجنوں فنکاروں نے اُن کے ساتھ بھارت سے بون آ کر اپنے فن کا مظاہرہ کیا تھا۔ اِس ڈرامے میں اُنہوں نے باقاعدہ اداکاروں کی بجائے سڑکوں پر اور گلیوں میں گانے بجانے اور تماشا دکھانے والوں کو دکھایا اور ایک نئی روایت کی بنیاد ڈالی۔

Theater Regisseur Habib Tanvir
حبیب تنویر نے خود کو اسٹیج کے لئے وقف کر رکھا تھا، وہیں وہ سب سے زیادہ سکون محسوس کرتے تھے۔ 2006ء میں بون میں لی گئی ایک تصویرتصویر: DW

1959ء میں اُنہوں نے اپنی اہلیہ مونیکا مشرا کے ہمراہ بھوپال میں ’’نیا تھئیٹر‘‘ کے نام سے ایک تھئیٹر کمپنی کی بنیاد رکھی، جو اِس سال اپنی گولڈن جوبلی منا رہی ہے۔

1975ء میں اُنہوں نے ’’چرن داس چور‘‘ کے نام سے ایک اور ڈرامہ لکھا، جو بے حد مقبول ہوا۔ اِس ڈرامے کے باعث اُنہیں 1982ء میں ایڈنبرا انٹرنیشنل ڈرامہ فیسٹی ول میں فرنج فرسٹس ایوارڈ سے نوازا گیا۔

اُنہیں جو بے شمار اعزازات ملے، اُن میں 1969ء کا سنگیت ناٹک اکیڈمی ایوارڈ، 1983ء میں ملنے والا پدم شری اور سن 2002ء میں ملنے والا پدم بھوشن بھی شامل ہیں۔

حبیب تنویر نے تقریباً نو فلموں میں اداکاری کی، جن میں رچرڈ ایڈنبرگ کی بنائی ہوئی فلم ’’گاندھی‘‘ بھی شامل ہے۔

اُن کے انتقال پر بھارت کی سرکردہ سیاسی و سماجی شخصیات نے گہرے دکھ کا اظہار کیا ہے اور اسٹیج کے لئے اُن کی خدمات کو شاندار الفاظ میں خراجِ عقیدت پیش کیا ہے۔