1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بلَو فِش: خوبصورت مگر خطرناک مچھلی

عابد حسین24 اگست 2015

سِلور جبڑے والی بلَو فش کا اصل مسکن منطقہ حارہ یا گرم مرطوب علاقے ہیں۔ اِس کا گوشت لذیذ نہیں بلکہ جان لیوا ہو سکتا ہے۔ جرمنی سمیت کئی ملکوں میں اِس کے شکار اور فروخت پر پابندی ہے۔

https://p.dw.com/p/1GKbZ
سِلور جبڑے والی بلَو فشتصویر: picture alliance/Hippocampus Bildarchiv/K. Velling

بلَو فش کے کئی نام ہیں اور اِن میں بالُون فِش، ٹوڈ فِش، سویل فِش اور گلوب فِش خاص طور پر مشہور ہیں اور اِس کی ایک بڑی وجہ جب اِس کو شکار کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو یہ خطرے کا احساس کرتے ہوئے خود کو غبارے کی طرح پھُلا لیتی ہے۔ یہ دس سینٹی میٹر سے ایک میٹر تک لمبی ہو سکتی ہے۔ بظاہر دیکھنے میں یہ انتہائی خوبصورت ہوتی ہے لیکن یہ گھر کے اندر شوقیہ طور پر بنائے گئے ایکویریئم کے لیے تجویز نہیں کی جاتی۔ اِس کو چھونے کی صورت میں یہ کاٹ لیتی ہے اور یہ جان لیوا ہو سکتا ہے۔ اِس کا گوشت بھی زہریلا ہوتا ہے اور کھانے کے بعد قے آنا شروع ہو جاتی ہے اور بہتر علاج میسر نہ آنے کی صورت میں موت بھی واقع ہو سکتی ہے۔

یہ مچھلی پہلے یورپی ساحلی پٹیوں پر قطعاً دکھائی نہیں دیتی تھی لیکن نہر سویز سے تیرتی ہوئی اب بحیرہ روم میں پہنچ چکی ہے۔ اِس کو گاہے بگاہے اٹلی اور اسپین کے ساتھ سمندری علاقوں میں دیکھا گیا۔ جرمنی کی فرینکفرٹ یونیورسٹی اور میڈیکل ہسپتال کے شعبہ ٹیکسکالوجی کے ماہر ڈیٹرش میبس کا کہنا ہے کہ ایسا دکھائی دیتا ہے کہ بلَو فِش کو بحیرہ روم اپنے وطن جیسا محسوس ہوا ہے۔ زہریلی مخلوقات سے متعلق ماہرین کا خیال ہے کہ بلَو فش کی نقرئی جبڑے والی قسم بحیرہ روم میں انتہائی مضر اجنبی مخلوق ہے۔ ماہرین کے مطابق بحیرہ احمر سے نہر سویز کو عبور کر کے بحیرہ روم پہنچنے والی یہ مچھلی مشرقی حصے میں خاصی افزائش پا چکی ہے۔ ماہرین نے اِس مچھلی کی آمد کو یلغار سے تعبیر کرتے ہوئے اِس کے مجموعی اثرات کو طاعونی قرار دیا ہے۔

Fischschwarm Cabo Pulmo National Park
جرمنی سمیت کئی ملکوں میں اِس کے شکار اور فروخت پر پابندی ہے۔تصویر: picture-alliance/landov/O. Aburto-Oropeza/Ilcp

یونانی رہوڈز جزیرے پر قائم ہیلینک سینٹر برائے میرین ریسرچ کی ماہرِ حیاتیات ماریا کورسینا فوکا نے بلَو فِش کے بارے میں بتایا ہے کہ یہ مچھلی اب مغربی بحیرہ روم میں بھی اپنی نسل آگے بڑھانے میں مصروف ہے۔ یونانی جزیرے رہوڈز کے قریب بھی اِس مچھلی کو دیکھا گیا ہے۔ سن 2013 کے بعد یہ مچھلی اسپین و اٹلی کے علاوہ مالٹا اور الجیریا کے ساحلوں کے قریب بھی شکاریوں اور ماہرین کو دکھائی دینا شروع ہو گئی ہے۔ جرمن ماہر ڈیٹرش میبس کو یہ تشویش لاحق ہے کہ بہت سارے لوگ اور بحیرہ روم کی سیاحت کرنے والے سیاح اِس مچھلی کے بارے میں ضروری آگہی نہیں رکھتے۔

ڈیٹرش میبس کے مطابق ہر بلَو فِش زہر کی حامل ہوتی ہے۔ کئی ملکوں میں اِس مچھلی کے کھانے سے زہر خوری کو رپورٹ کیا گیا ہے۔ ان میں خاص طور پر ترکی اور اسرائیل شامل ہیں۔ مچھلی کھانے سے بلَو فِش کا زہر انسانی بدن کے اعصابی نظام کو معطل کر دیتا ہے اور بتدریج سارا بدن مفلوج ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ متاثرہ شخص کو قے آنا شروع ہو جاتی ہے۔ مفلوج ہونے کا احساس انگلیوں سے شروع ہوتا ہے اور بڑھتے بڑھتے جب نظام تنفس اِس کی لپیٹ میں آتا ہے تو موت واقع ہونے کا امکان بڑھ جاتا ہے۔ دنیا بھر میں جاپان صرف ایک واحد ملک ہے، جہاں اِس مچھلی کے گوشت کو خاص انداز میں پکا کر کھایا جاتا ہے۔ پکانے کے دوران ماہر باورچی بلَوفِش کے زہریلی اثرات کو زائل کر دیتا ہے۔