1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بریگزٹ: برطانوی حکومت کے خلاف عدالت سے رجوع کا فیصلہ

افسر اعوان4 جولائی 2016

قانونی مشاورت فراہم کرنے والی برطانیہ کی ایک بڑی کمپنی نے کہا ہے کہ اگر برطانوی حکومت پارلیمان سے مشورہ کیے بغیر ہی یورپی یونین سے علیحدگی کے لیے آرٹیکل 50 لاگو کرتی ہے تو وہ اُس کے خلاف عدالت میں جائے گی۔

https://p.dw.com/p/1JIgQ
تصویر: DW/B. Wesel

لندن میں قائم مشکون ڈی رایا (Mishcon de Reya) نامی اس لاء فرم کے وکلاء کا کہنا ہے کہ برطانوی حکومت کو پہلے اس بات پر ملکی پارلیمان میں بحث اور ووٹنگ کرانی چاہیے کہ آیا آرٹیکل 50 کے تحت یورپی یونین سے برطانیہ کی علیحدگی کی کارروائی شروع کی جائے یا نہیں۔ لزبن ٹریٹی کے آرٹیکل 50 کے تحت اگر برطانوی حکومت یورپی یونین سے الگ ہونے کا عمل شروع کرتی ہے تو اس عمل کو مکمل ہونے کے لیے کم از کم دو برس کا عرصہ درکار ہو گا۔

مؤکلوں کے ایک گروپ کی طرف سے عمل کرتے ہوئے اس لاء فرم نے کہا ہے کہ اگر حکومت پارلیمان سے اجازت لیے بغیر یورپی یونین سے نکلنے کے عمل کا آغاز کرتی ہے تو وہ حکومت کے اس فیصلے کو عدالت میں چیلنج کرے گی۔

برطانیہ میں 23 جون کو ہونے والے عوامی ریفرنڈم میں عوام کی اکثریت نے فیصلہ دیا تھا کہ برطانیہ کو یورپی یونین سے الگ ہو جانا چاہیے۔ تاہم اس لاء فرم کا کہنا ہے کہ اس ریفرنڈم کے نتائج پر عملدرآمد قانونی طور پر لازمی نہیں ہے بلکہ یہ ’’برطانوی شہریوں کے خیالات جاننے کی ایک مشق‘‘ تھی۔

اسکاٹ لینڈ کی اکثریت نے یورپی یونین میں رہنے کے حق میں ہی ووٹ دیا تھا
اسکاٹ لینڈ کی اکثریت نے یورپی یونین میں رہنے کے حق میں ہی ووٹ دیا تھاتصویر: Reuters/N. Hall

اس قانونی کمپنی کا کہنا ہے کہ برطانوی آئین کے مطابق یورپی یونین سے الگ ہونے کے لیے قانونی عمل کے آغاز کا فیصلہ اب لوگوں کے نمائندگان کے ہاتھوں میں ہے۔ مشکون ڈی رایا کے ایک وکیل کسرا نوروزی کے مطابق اگر آئینی طور پر درکار طریقہٴ کار کے مطابق پارلیمان سے مشاورت اور اجازت کے بغیر یورپی پونین سے الگ ہونے کے عمل کا آغاز کیا جاتا ہے تو یہ عمل غیر قانونی ہو گا۔

برطانیہ میں کتابی شکل میں تو ملکی آئین موجود نہیں ہے تاہم پارلیمانی اقدامات، عدالتی فیصلوں اور سزاؤں کی صورت میں ایک غیر مرتب شدہ آئین ضرور موجود ہے اور اسی باعث برطانیہ کے یورپی یونین سے اخراج کے آئینی عمل کے بارے میں مزید سوالات کھڑے ہوتے ہیں۔

23 دسمبر کے برطانوی ریفرنڈم کے بعد یورپی یونین کے رہنماؤں کا اصرار ہے کہ برطانوی حکومت آرٹیکل 50 کو لاگو کرنے کے لیے وقت ضائع نہ کرے کیونکہ انہیں خدشہ ہے کہ بے یقینی کی صورتحال اس یورپی بلاک کی معاشی مارکیٹوں کے لیے خطرے کی گھنٹی بنی رہے گی۔

بریگزٹ کے خلا برطانوی دارالحکومت لندن میں بھی بڑے پیمانے پر احتجاجی مظاہرے کیے جا رہے ہیں
بریگزٹ کے خلا برطانوی دارالحکومت لندن میں بھی بڑے پیمانے پر احتجاجی مظاہرے کیے جا رہے ہیںتصویر: Reuters/P. Hackett

اگر برطانوی حکومت کی طرف سے یورپی یونین سے الگ ہونے کی کارروائی کے آغاز کو عدالت میں چیلنج کر دیا جاتا ہے تو اس سے یہ عمل مزید طوالت اختیار کر سکتا ہے اور نتیجتاﹰ بے یقینی کی صورتحال بھی۔ تاہم اگر عدالت اس کے خلاف فیصلہ دیتی ہے تو پھر برطانیہ کے یورپی یونین سے اخراج کا فیصلہ معطل بھی ہو سکتا ہے۔ دوسری طرف اسکاٹ لینڈ نے کہا ہے کہ اس کی پارلیمان بریگزٹ کا راستہ روکنے یا پھر برطانیہ سے الگ ہونے کے سوال پر ریفرنڈم کرا سکتی ہے تاکہ وہ آئندہ بھی یورپی یونین میں ہی شامل رہے۔ خیال رہے کہ اسکاٹ لینڈ کی اکثریت نے یورپی یونین میں رہنے کے حق میں ہی ووٹ دیا تھا۔