برلینالے میں بھارت سے آنے والی ’نئی لہر‘ کی دھوم
18 فروری 2011برلینالے میں دکھائی گئی اس فلم کا نام اگر اردو میں لیا جائے تو سننے والا اسے اخلاقی حوالے سے برا سمجھے گا۔ جنوبی ایشیا میں اس لفظ سے مراد ہم جنس پرست مرد لیا جاتا ہے۔
یہ فلم ناقدین نے ایک پروڈکشن کے طور پر اتنی پسند کی کہ جرمن میڈیا نے اسے بالی وڈ میں بننے والی اکثر روایتی فلموں کے برعکس ایک شاندار فلم کا نام دیا۔ کئی ماہرین کا کہنا ہے کہ مردانہ ہم جنس پرستی کے موضوع پر اس فلم کو یورپ میں تو کافی پسند کیا جا رہا ہے، لیکن ہو سکتا ہے کہ بھارت میں اسے ایک سماجی موضوع پر فلم سازی کی کوشش کے طور پر زیادہ پسند نہ کیا جائے۔ قدرے کم لاگت سے بنائی گئی اس فلم کے مکالمے اور پیغام دونوں بڑے سخت ہیں۔
اس فلم کے 36 سالہ ہدایتکار، جو اپنے نام کے طور پر صرف انگریزی زبان کا حرف Q استعمال کرتے ہیں، کہتے ہیں کہ انہوں نے اس فلم کے ذریعے بہت سی رکاوٹیں ختم کر دی ہیں۔
مردانہ ہم جنس پرستی کے موضوع پر اس فلم کے ہدایتکار Q کا کہنا ہے: ’’میں نے اس فلم میں جو کچھ دکھایا ہے، میری رائے میں وہ شناخت، جنسیت اور انسانوں کی سماجی حیثیت سے متعلق فرسٹریشن کی وجوہات کی عکاسی کرتا ہے۔ ہم بھارت میں ایک غیر واضح ذہنیت کے ساتھ جوان ہوئے۔ ہمیں کسی نے بتایا ہی نہیں کہ جنس یا جنسیت کس کو کہتے ہیں۔ اس لیے آپ جنسی شعور اور شناخت کے حوالے سے منتشر سوچ کے ساتھ جوان ہوتے ہیں۔‘‘
اس فلم میں مرکزی کردار ایک 21 سالہ لڑکے نے ادا کیا ہے، جو اپنی والدہ کے ساتھ کولکتہ میں رہتا ہے۔ اس کی والدہ جسم فروشی کرتی ہے اور یہ لڑکا اپنے گھر سے اس لیے زیادہ سے زیادہ باہر رہتا ہے کہ وہ اپنی والدہ کی حقیقی زندگی کا سامنا کرنے سے بچا رہے۔
یہ نوجوان شہر میں گھوتے پھرتےکبھی بروس لی کی طرح لڑنے لگتا ہے اور کبھی کسی مشہور پاپ گلوکار کی طرح گانے لگتا ہے ۔ پھر اسے پتہ چلتا ہے کہ اس کے اس رویے کے لیے اس کے ارد گرد کے معاشرے میں کوئی جگہ نہیں ہے۔ اس طرح اس فلم کا مرکزی کردار عوامی طنز کا نشانہ بننے لگتا ہے۔ پھر اس کی دوستی ایک رکشے والے سے ہو جاتی ہے، وہ منشیات استعمال کرنے لگتے ہیں اور اسی دوران ان کے باہمی جنسی رابطوں کی ابتدا بھی ہو جاتی ہے۔
اس فلم میں مرکزی کردار ادا کرنے والے کولکتہ کے اکیس سالہ نوجوان انوبرت نے بعد ازاں ایک انٹرویو میں کہا، ’’یہ فلم صرف کولکتہ کے لڑکوں کی کہانی نہیں ہے بلکہ بھارت میں ایسا ہر جگہ ہو رہا ہے اور اس فلم میں میرا کردار بہت حقیقت پسندانہ ہے۔‘‘
امریکی اخبار وال سٹریٹ جرنل نے اس بھارتی فلم کو ایک ’نئی لہر‘ کا نام دیا ہے۔ تاہم یہ امکان اپنی جگہ موجود ہے کہ بھارت میں جہاں فلم سنسرشپ سے متعلق ابھی تک سخت قوانین نافذ ہیں، شاید اس فلم کی ریلیز کی اجازت نہ دی جائے۔
رپورٹ: عصمت جبیں
ادارت: مقبول ملک