برطانیہ کو وقت چاہیے، میرکل اور مے متفق
21 جولائی 2016لندن حکومت یورپی یونین کی صدارت سے دستبردار ہو کر بریگزٹ کی جانب پہلا قدم لے چکی ہے۔ بریگزٹ کے حق میں برطانوی عوام کے فیصلے کے بعد کاروبار حکومت سنبھالنے والی برطانیہ کی نئی وزیر اعظم ٹریزا مے بدھ کے روز اپنے پہلے سرکاری غیر ملکی دورے پر برلن پہنچیں جہاں انہوں نے جرمن چانسلر انگیلا میرکل سے ملاقات کی۔ اسے ملاقات میں انہوں نے میرکل کو آگاہ کیا کہ ان کا ملک 2016ء کے اختتام سے قبل یورپی یونین چھوڑنے کے لیے درکار کارروائی پر عملدرآمد نہیں کرے گا۔ مے کے مطابق اس کا مقصد ’معقول اور مناسب انداز میں علیحدگی‘ ہے۔
برلن میں گفتگو کرتے ہوئے مے کا کہنا تھا، ’’جب تک ہمارے مقاصد واضح نہیں ہو جاتے، ہم یورپی یونین کے منشور کے آرٹیکل 50 پر عملدرآمد نہیں کریں گے، جس کے بارے میں، میں پہلے ہی کہہ چکی ہوں کہ یہ رواں برس کے اختتام سے قبل ممکن نہیں ہو گا۔‘‘ مے کا اشارہ یورپی یونین چھوڑنے کے لیے درکار ضروری طریقہ کار کی جانب تھا۔
برطانیہ اگلے برس یورپی یونین کی ششماہی صدارت سے دستبردار
ٹریزا مے نئی برطانوی وزیر اعظم، بورس جانسن نئے وزیر خارجہ
برطانیہ کے یورپی یونین سے اخراج یا بریگزٹ سے متعلق مذاکرات میں جرمن چانسلر انگیلا میرکل کی طرف سے اہم کردار ادا کیے جانے کی توقع ہے۔ ٹریزا مے سے ملاقات کے بعد میرکل کا کہنا تھا کہ یہ بات سب کے فائدے میں ہے کہ برطانیہ مذاکرات شروع کرنے سے قبل ایک ’واضح پوزیشن‘ میں ہو: ’’کوئی بھی یہ نہیں چاہتا کہ چیزیں ہوا میں معلق رہیں۔۔۔ نہ ہی برطانیہ اور نہ یورپی یونین کی رکن ریاستیں۔‘‘
جرمن چانسلر کا مزید کہنا تھا، ’’اگر ہم ان تمام معاملات اور چیلنجز کو دیکھیں جن کا ہمیں سامنا ہے، تو یہ بہت اہم ہے کہ برطانیہ ایک پارٹنر رہے اور ہم ایسا ہی کریں گے اور پھر برطانیہ کے جانے سے متعلق معاملات طے کریں گے۔‘‘
برطانیہ کی طرف سے قبل ازیں یہ اعلان کیا جا چکا ہے کہ وہ اگلے برس کی دوسری ششماہی میں یورپی یونین کی چھ ماہ کے عرصے کے لیے صدارت نہیں لے گا۔ یورپی یونین کی صدارت باری باری تمام رُکن ممالک کو دی جاتی ہے اور اس کا دورانیہ چھ ماہ ہوتا ہے۔ برطانیہ نے آئندہ برس جولائی میں یہ صدارت سنبھالنا تھی۔ اب برطانیہ کی جگہ ایسٹونیا یکم جولائی 2017ء سے چھ ماہ کے لیے یورپی یونین کی صدارت سنبھالے گا۔
برطانیہ میں 23 جون کو ہونے والے عوامی ریفرنڈم میں اکثریت نے یورپی یونین کو چھوڑنے کے حق میں ووٹ دیا تھا، جس کے بعد اس بلاک کی طرف سے برطانیہ سے مطالبہ کیا جا رہا تھا کہ وہ جلد از جلد رکنیت چھوڑنے کے لیے طے شدہ طریقہ کار کا آغاز کرے۔ تاہم ڈیوڈ کیمرون کے بعد عنان حکومت سنبھالنے والی ٹریزا مے متعدد مرتبہ کہہ چکی ہیں کہ لندن کو 43 برس پرانی یہ رکنیت چھوڑنے سے قبل مناسب حکمت عملی ترتیب دینا ہو گی جس کے لیے وقت درکار ہے۔
توقع کی جا رہی ہے کہ ٹریزا مے جرمنی کے بعد فرانس روانہ ہوں گی جہاں وہ فرانسیسی صدر فرانسو اولانڈ سے ملاقات کریں گی۔