برطانیہ کو محفوظ بنانے کے لیے ہر ممکن کارروائی کی جائے گی، لندن حکام
9 اگست 2011اجلاس کے بعد ٹین ڈاؤننگ اسٹریٹ کے باہر ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کے سامنے اپنے مختصر بیان میں وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے کہا کہ لوٹ مار، توڑ پھوڑ اور دیگر تخریبی سرگرمیاں مجرمانہ ذہنیت کی عکاسی کرتی ہیں اور یہ انتہائی قابل مذمت ہیں۔ ان سے آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ پیر کی شب لندن میں سولہ ہزار پولیس اہلکاروں کو تعینات کیا گیا تھا اور ملک کے دیگر حصوں سے بھی پولیس طلب کر لی گئی ہے، اس کے علاوہ پولیس کی تمام تعطیلات بھی منسوخ کر دی گئی ہیں۔ اب تک 450 سے زائد افراد کو گرفتار کیا گیا ہے اور ان کے خلاف فوری قانونی کارروائی کی جائے گی۔
ڈیوڈ کیمرون نے کہا کہ جمعرات کو پارلیمان کا ایک خصوصی ایک روزہ اجلاس طلب کیا گیا ہے جس میں ان واقعات کی مذمت کی جائے گی۔ وزیر اعظم نے متاثرہ خاندانوں سے ہمدردی کا بھی اظہار کیا۔
لندن کے علاقے ٹوٹن ہیم میں پولیس کے ہاتھوں ایک سیاہ فام شخص کی ہلاکت کے بعد شروع ہونے والے ہنگاموں کا دائرہ کار برمنگھم، لیور پول، نوٹنگھم اور برسٹل سمیت کئی شہروں تک پھیل گیا ہے اور نوجوانوں کے گروہوں نے سڑکوں پر توڑ پھوڑ کے علاوہ دکانیں اور اسٹور لوٹ لیے اور متعدد گاڑیوں کو آگ لگا دی۔
لندن کے مختلف علاقوں میں مکین اپنے گھروں کے باہر بکھرے ہوئے شیشوں، اینٹوں، بوتلوں اور جلی ہوئی عمارتوں کی صفائی کر رہے ہیں۔
پولیس کے مطابق یہ گزشتہ دو دہائیوں میں ہونے والے بدترین فسادات ہیں۔ مختلف سیاسی رہنماؤں کی جانب سے ہنگاموں سے نمٹنے کے لیے سخت اقدامات کیے جانے کی تجاویز دی گئی ہیں۔ انڈیپنڈنٹ پارٹی کے رہنما Nigel Farage نے تجویز پیش کی ہے کہ امن و امان بحال کرنے کے لیے فوج طلب کر لی جائے۔ کنزرویٹو رکن پارلیمان پیٹرک مرسر نے کہا کہ ضرورت پڑنے پر نوجوانوں کے ہجوم کو منتشر کرنے کے لیے تیز دھار پانی پھینکا جائے جبکہ لیبر پارٹی کے رکن پارلیمان ڈائین ایبٹ نے شورش زدہ علاقوں میں کرفیو نافذ کرنے کی تجویز دی ہے۔
بعض مبصرین نے ہنگاموں کے لیے جزوی طور پر سماجی سروسز میں کٹوتیوں کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے جو حکومت نے بجٹ خسارے پر قابو پانے کے لیے کفایت شعاری کے سخت اقدامات کے تحت کی ہیں۔ لوٹ مار کرنے والے بیشتر افراد کا تعلق ایسے علاقوں سے ہے، جہاں بے روزگاری کی شرح بلند ہے اور ان کا کہنا ہے کہ وہ خود کو معاشرے سے الگ تھلگ محسوس کرتے ہیں۔
لندن کے انتہائی متاثرہ کثیر النسلی علاقے ہیکنی کے ایک نوجوان نے کہا: ’’ہمارے پاس نہ ملازمت ہے اور نہ پیسہ۔ ہم سنتے ہیں کہ دوسروں کو مفت چیزیں مل رہی ہیں، تو پھر ہمیں کیوں نہیں مل سکتیں؟‘‘
حکومتی عہدیداروں نے ہنگاموں میں ملوث افراد کو جرائم پیشہ عناصر قرار دیا ہے اور ان کا کہنا ہے کہ تشدد کے واقعات کا 2012 ء لندن اولمپکس کی تیاریوں پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔
ادھر، ویمبلی میں بدھ کو انگلینڈ اور ہالینڈ کے درمیان ہونے والا دوستانہ فٹ بال میچ منسوخ کر دیا گیا ہے۔ منگل کو انگلش فٹ بال ایسوسی ایشن نے ایک بیان میں کہا کہ انگلش لیگ کے بہت سے دیگر مقابلے بھی منسوخ کر دیے گئے ہیں۔
رپورٹ: حماد کیانی
ادارت: ندیم گِل