براہ راست مذاکرات ورنہ جنگ: نکونڈا
30 نومبر 2008جنرل نکونڈا کانگو کے شمالی حصے میں حکومتی افواج پر زبردست دباؤ ڈالے ہوئے ہیں اور کچھ روز قبل ان کی فوج نے حکومتی دستوں سے کئی علاقے چھین لئے تھے۔ تاہم بعد میں نکونڈا نے یہ کہہ کر مقبوضہ علاقے خالی کئے کہ وہ اقوام متحدہ کے امن مشن سے تعاون چاہتے ہیں۔ جنرل نکونڈا نے ایک بار پھر زور دے کر کہا ہے کہ وہ کونگو کے صدر جوزف کابیلا سے براہ راست مذاکرات چاہتے ہیں۔ تاہم کانگو کے صدر جوزف کابیلا نے باغیوں سے براہ راست مذاکرات سے انکار کر رہے ہیں۔
گزشتہ روز باغی لیڈر جنرل لوراں نکونڈا نے نائیجیریا کے سابق صدر اور اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی اوباسانجو سے ملاقات کے بعد صحافیوں کو بتایا کہا کہ اگر مذاکرات نہیں تو پھر جنگ ہو گی۔’’میرے خیال میں سب سے بہتر راستہ مذاکرات ہیں، ہم جانتے ہیں کہ حکومتی فوج میں لڑنے کی سکت نہیں ہے ان کے پاس صرف ایک ہی راستہ بچتا ہے اور وہ ہے بات چیت کا راستہ ۔‘‘
نکونڈا نے کہا اوباسانجو سے ملاقات میں اصولی طور پرحکومت اور باغیوں کے درمیان براہ راست مذاکرات پر اتفاق ہوا ہے تاہم ان کا کہنا تھا کہ اب تک مزاکرات کے لئے جگہ کا تعین نہیں کیا جا سکا۔
ادھر عوامی جمہوریہ کانگو نے ایک بارپھر واضح کیا ہے کہ نکونڈا جنوری میں کئے گئے امن معاہدے کا پاس رکھیں۔ حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ جنوری امن معاہدے پر ہی عمل کیا جائے گا اور حکومت باغیوں سے نئے سرے سے مذاکرات نہیں کرے گی۔
جنرل نکونڈا سے ملاقات کے بعد اوباسانجو نے کانگو کے صدر جوزف کابیلا سے بھی ملاقات کی۔ ان ملاقاتوں کے بعد انہوں نے ایک بیان میں کہا کہ کانگو میں امن کے حوالے سے کافی پیش رفت ہو ئی ہے۔