باڑ عبور کرنے والے مہاجرین کو گولی نہیں ماری جائے گی، ہنگری
7 ستمبر 2015ہنگری کے وزیر اعظم وکٹور اوربان نے ایک مرتبہ پھر اپنے اس موقف کو دہرایا ہے کہ یورپ پہنچنے والے تارکین وطن کو اصل میں سیاسی پناہ کی ضرورت نہیں ہے۔ آسٹرین براڈکاسٹر او آر ایف سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ مشرق وسطی، افریقہ اور ایشیا کے بحران زدہ علاقوں سے پہنچنے والے تارکین وطن کی زیادہ تر تعداد غربت سے فرار ہو رہی ہے جبکہ ان میں سے حقیقی پناہ کی ضرورت بہت کم لوگوں کو ہے۔
دوسری جانب ہنگری نے سربیا کے ساتھ ملحق اپنی سرحد پر باڑ لگانے کا کام مزید تیز کر دیا ہے۔ تین اعشاریہ پانچ میٹر (گیارہ اعشاریہ پانچ فٹ) اونچی اس باڑ کا مقصد تارکین وطن کو ہنگری میں داخل ہونے سے روکنا ہے۔ ناقدین اور انسانی حقوق کی علمبردار تنظیمیں ہنگری کے اس اقدام کی مذمت کر ر ہی ہیں۔ دوسری جانب ہنگری کے وزیراعظم نے اس تنقید کا جواب دیتے ہوئے کہا ہے، ’’ہم یورپی قوانین کے مطابق پورپ کی حفاظت کر رہے ہیں اور یہ قوانین کہتے ہیں کہ سرحدوں کو چیکنگ کے بعد صرف مخصوص مقامات سے عبور کیا جا سکتا ہے۔‘‘
اس سوال کے جواب میں کہ کیا وہاں تعینات فوجیوں کو گولی چلانے کا حکم بھی دیا جائے گا، تو ان کا کہنا تھا، ’’یہ ضروری نہیں ہوگا کیونکہ وہاں ایک ایسی باڑ ہوگی، جسے عبور نہیں کیا جا سکے گا۔ جو بھی اسے عبور کرنے کی کوشش کرے گا، اسے گرفتار کیا جائے گا اور اس کے خلاف مقدمہ چلایا جائے گا۔ کسی بھی ہتھیار کے استعمال کی ضرورت نہیں پڑے گی۔‘‘
نوّے کی دہائی میں یوگوسلاویہ ٹوٹنے کے بعد سے اب تک یورپ کو سب سے بڑے مہاجرین کے بحران کا سامنا ہے اور یورپی یونین میں شامل ممالک اس بات پر بھی منقسم ہیں کہ کونسا ملک کتنے تارکین وطن کو پناہ دے گا۔ جرمنی اور آسٹریا کوٹہ سسٹم کے حامی ہیں جبکہ کئی دیگر ممالک اس کی مخالفت کر رہے ہیں۔
اس کوٹہ سسٹم کے بارے میں ہنگری کے وزیراعظم کا کہنا تھا، ’’اگر یورپ کی بیرونی سرحدوں کو بلاک نہیں کیا جاتا تو کسی بھی سسٹم کے بارے میں بات کرنا فضول ہے۔ جب غیر قانونی تارکین وطن کی آمد کو روکنے کے لیے یورپ کی بیرونی سرحدوں کو بند کیا جائے گا تو اس مسئلے کا حل بھی ڈھونڈا جا سکتا ہے۔‘‘