باچاخان یونیورسٹی سانحہ، کئی خواب ٹوٹ گئے
22 جنوری 2016چارسدہ یونیورسٹی پر اس حملے میں 20 سے زائد افراد ہلاک ہوئے، جن میں اکثریت طلبہ کی تھی، تاہم حامد حسین کی جماعت میں پڑھنے والے طلبہ بتاتے ہیں کہ ان کے پروفیسر نے اپنی جان دے کر کس طرح اپنے طلبہ کی جان بچائی،۔
سن 2014ء میں پشاور میں ایک اسکول پر حملے میں 150 افراد کی ہلاکت کے بعد حکومتی تعلیمی مراکز میں اساتذہ کو اپنے ہم راہ اسلحہ رکھنے کی اجازت دی گئی تھی اور انہیں کسی حد تک تربیت بھی فراہم کی گئی تھی۔ یہی تربیت ان حملہ آوروں کے خلاف ’فرسٹ لائن آف ڈیفنس‘ یا ’دفاع کی پہلی لکیر‘ ثابت ہوئی۔ اس سے سکیورٹی فورسز کو ردعمل کا وقت دستیاب ہو گیا۔
32 سالہ حسین ایک دکان دار کے بیٹے تھے۔ حامد حسین نے برطانیہ سے کیمسٹری میں پی ایچ ڈی کی سند حاصل کی تھی۔ طلبہ کی جان بچانے کے لیے اپنی جان قربان کر دینے والے حامد حسین کو اب ایک ہیرو کے طور پر سراہا جا رہا ہے۔
حسین کو اس واقعے میں دو گولیاں لگیں، ایک سر پر اور ایک سینے میں۔ ان کے بھائی اشفاق حسین کا کہنا ہے کہ ان کے بھائی کے دائیں ہاتھ پر ایک زخم کا نشان بھی تھی، جو یہ بتاتا ہے کہ انہوں نے اپنا نو ایم ایم کی پستول دوبارہ لوڈ کرنے کی کوشش کی، جس کی وجہ سے انہیں ہاتھ پر چوٹ لگی۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی اس سلسلے میں تربیت زیادہ نہیں تھی۔
صوابی سے تعلق رکھنے والے حسین کے اہل خانہ اور رشتے دار اپنے خان دان کے اس محنتی اور ذہین شخص کا سوگ منا رہے ہیں۔ اہل خانہ کے مطابق حامد حسین کی خواہش تھی کہ وہ دنیا کا سفر کریں۔
حامد حسین اپنے خان دان کا پہلا لڑکا تھا، جس نے سیکنڈری اسکول کی تعلیم مکمل کی تھی، پھر وہ یونیورسٹی گیا اور اس کے اہل خانہ نے اپنی تمام جمع پونجی خرچ کر کے حامد حسین کو اعلیٰ تعلیم دلوائی۔
سوگواران میں حسین کا تین سالہ بیٹا بھی ہے۔ چند ہی روز قبل حامد نے اپنے بیٹے کی تیسری سالگرہ منائی تھی، جس میں انہوں نے اپنے کچھ طلبہ کو بھی دعوت دی تھی۔ حامد حسین کے اہل خانہ کے مطابق اس ہلاکت سے ان کے خان کے کئی خواب ٹوٹ گئے۔