باراک اوباما اور لاطینی امریکہ: ایک نئے باب کا آغاز؟
7 اپریل 2009وینیزویلا کے شعلہ بیاں مارکسی صدر ہوگو شاویز نے منگل کے روز امریکی صدر باراک اوباما کے اس بیان کا خیر مقدم کیا ہے جس میں انہوں نے دنیا کو جوہری اسلحے اور تنازعات سے پاک کرنے کے عزم کا اعادہ کیا تھا۔ کیا امریکہ اور لاطینی امریکہ کے درمیان ایک نئے باب کا آغاز ہو رہا ہے؟
امسال جنوری میں باراک اوباما کے امریکی صدر بننے کے بعد جہاں بظاہر امریکہ کے ساتھ تصادم کا شکار مسلمان ممالک اور عرب دنیا میں امید ہوچلی کہ امریکہ کے ساتھ ان کے تعلقات بہتری کی جانب گامزن ہوں گے وہاں ایک اور ایسے خطّے میں بھی ان کے صدر بننے کا خیر مقدم کیا گیا جس کے تعلقات امریکہ کے ساتھ عرصے سے کشیدہ چلے آ رہے ہیں۔ لاطینی امریکہ کی سوشلسٹ ریاستوں اور امریکہ کی سابقہ بش انتظامیہ کے درمیان تعلقات اس حد تک کشیدہ ہوچکے تھے کہ ان کے درمیان سفارتی تعلقات بھی محض نام ہی کے رہ گئے تھے۔ باراک اوباما کے صدر منتخب ہونے سے صورتِ حال میں بہتری کی توقع کی جا رہی ہے۔
بائیں بازو کے دانشور اور لاطینی امریکہ کی سیاست پر نظر رکھنے والے صحافی فاروق سہلریا کا کہنا ہے کہ باراک اوباما کے امریکی صدر بننے سے دونوں برّاعظموں کے درمیان کسی انقلابی تبدیلی کی امید تو نہیں کی جا سکتی تاہم اس میں بہتری آنے کا امکان ضرور ہے۔
کیوبا کی بائیں بازو کی حکومت اوباما کے بارے میں ملے جلے خیالات رکھتی ہے۔ اوباما کے صدر منتخب ہونے کا اس نے خیر مقدم کیا تھا تاہم بعض اوقات پر تنقید بھی کرتی رہی ہے۔
ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ بش انتظامیہ کی نسبت اوباما انتظامیہ دنیا کے ساتھ بہترتعلقات اس لیے بھی چاہتی ہے کہ امریکہ اس وقت مالیاتی بحران کا شکار ہے اور وہ دنیا کو اپنے خلاف کرنے کے بجائے ان کو ساتھ لے کر چلنا چاہتی ہے۔ باراک اوباما اس کے لیے موزوں ترین شخص ہیں۔