’ایٹمی منصوبے چھوڑ کر صدام اور قذافی کا کیا حشر ہوا‘
9 جنوری 2016شمالی کوریا کی سرکاری نیوز ایجنسی KCNA کی جانب سے جاری کیے جانے والے ایک تبصرے کے مطابق عراق کے صدام حسین اور لیبیا کے معمر القذافی کا جو حشر ہوا، اُس سے واضح ہو جاتا ہے کہ جب ملک جوہری ہتھیار حاصل کرنے کی کوششیں ترک کر دیتے ہیں تو اُن کے ساتھ کیا ہوتا ہے۔
جنوبی کوریا کے دارالحکومت سیول سے اپنے ایک جائزے میں نیوز ایجنسی اے ایف پی نے لکھا ہے کہ شمالی کوریا کی جانب سے اس بیان کے ساتھ ساتھ جنوبی کوریا کو خبردار کیا گیا ہے کہ وہ اپنی سرگرمیوں سے جزیرہ نما کوریا کو ’جنگ کے دہانے‘ پر لے کر جا رہا ہے۔ واضح رہے کہ شمالی کوریا کی جانب سے گزشتہ بدھ کے روز تازہ جوہری تجربے کے بعد سے جنوبی کوریا نے دونوں ہمسایہ کوریائی ریاستوں کی باہمی سرحد پر بڑے بڑے لاؤڈ اسپیکروں سے بلند آواز میں پراپیگنڈا نشریات کا سلسلہ دوبارہ شروع کر دیا ہے۔
شمالی کوریائی سرکاری نیوز ایجنسی کے تبصرے میں مزید کہا گیا ہے کہ پیونگ یانگ حکومت کا چوتھا نیوکلیئر ٹیسٹ ایک ’شاندار موقع‘ تھا، جس کے نتیجے میں شمالی کوریا کو ریاست ہائے متحدہ امریکا سمیت تمام مخالف قوتوں کے مقابلے پر اپنی سرحدوں کی حفاظت کے لیے ایک طاقتور ہتھیار میسر آ گیا ہے:’’تاریخ سے ثابت ہے کہ خائف رکھنے والے طاقتور جوہری ہتھیاروں نے ہمیشہ سے مایوس بیرونی قوتوں کے خلاف ایک طاقتور تلوار کا کام دیا ہے۔‘‘
جہاں شمالی کوریا کا کہنا یہ ہے کہ اُس کا تازہ ترین جوہری تجربہ ایک چھوٹے سائز کے ہائیڈروجن بم کا دھماکہ تھا، وہاں ماہرین بڑی حد تک اس دعوے کو یہ کہتے ہوئے رَد کر رہے ہیں کہ جس شدت کا دھماکا ہوا ، وہ ایک مکمل تھرمو نیوکلیئر یا ہائیڈروجن بم کے دھماکے کی شدت سے کہیں کم تھی۔
’کے سی این اے‘ نیوز ایجنسی کے تبصرے میں کہا گیا ہے:’’عراق میں صدام حسین کی حکومت اور لیبیا میں قذافی کی حکومت جوہری ہتھیار تیار کرنے کی بنیادوں سے محروم کیے جانے اور اپنے اپنے ایٹمی پروگرام ترک کرنے کے بعد تباہی سے نہ بچ سکیں۔‘‘ تبصرے کے مطابق ان دونوں رہنماؤں سے یہ غلطی ہوئی کہ انہوں نے امریکی سرکردگی میں مغربی دنیا کی جانب سے اقتدار میں تبدیلی کے لیے پڑنے والے دباؤ کے آگے سرِ تسلیم خم کر دیا۔
اس تبصرے میں کہا گیا ہے کہ شمالی کوریا کو جوہری تھیاوں کے حصول کی کوششیں ترک کر دینے کے لیے کہنا ایسے ہی ہے، جیسے ’آسمان کو گرتے ہوئے دیکھنے کی خواہش کرنا‘ اور یہ کہ پورے ملک کو اپنے ’ہائیڈروجن بم‘ پر فخر ہے۔