ایوانکا شُوز بنانے والے چینی ورکرز، اُجرت ایک ڈالر فی گھنٹہ
28 جون 2017چین کے جنوب مشرقی شہر گن جؤ کی ڈیزائنر جوتے بنانے والی ایک فیکٹری میں ایک مزدور اپنے سر سے ٹپکتے خون کو دیکھ رہا ہے۔ اُس کا چہرہ تکلیفوں اور پریشانیوں سے بھری زندگی کا غماز ہے۔
اس ورکر کو اُس کے مینجر نے تیز نوک والی جوتے کی ہِیل سے زدو کوب کیا ہے۔
خبر رساں ادارے اے پی کا کہنا ہے کہ ہوئی جان انٹرنیشنل شُوز کمپنی کے ایک موجودہ اور دو سابق ملازمین نے کئی بار پہلے بھی کمپنی کی انتظامیہ کی جانب سے بدسلوکی کی شکایت کی ہے۔ تاہم ان تینوں نے اے پی سے اُن کا نام صیغہ راز میں رکھنے کی شرط پر بات چیت کی۔
یہ تین افراد جو گن جؤ کی ہوئی جان فیکٹری کے حالات کے بارے میں تحقیقات کر رہے تھے، انہیں گزشتہ ماہ خفیہ ریکارڈنگ آلات کے ذریعے کارخانے کے تجارتی راز چوری کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے گرفتار کیا گیا تھا۔
ان میں سے ایک شخص جس سے خبر رساں ادارے اے پی نے بات کی، چائنہ لیبر واچ کے لیے کام کرتا تھا اور ایوانکا ٹرمپ کے لیے جوتوں کے چینی سپلائر کے بارے میں ایک سال سے تحقیق کر رہا تھا۔ مزدوروں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی اس چینی تنظیم کے سربراہ لی چیانگ کا کہنا تھا کہ ہوئی جان کی فیکٹری انتظامیہ مزدوروں سے بد سلوکی کے معاملے میں اُس کے اس حوالے سے بیس سالہ تجربے میں سب سے زیادہ بری ثابت ہوئی ہے۔
تنظیم کے مطابق یہاں مزدوروں کو ملنے والی اجرت ایک ڈالر فی گھنٹہ جتنی کم ہو سکتی ہے جو چینی لیبر قانون کے خلاف ہے۔ لیبر واچ کے تفتیش کاروں کے مطابق، یہ رپورٹ آنے تک یہاں کام کرنے والوں کو فی ماہ دو دن یا اُس سے بھی کم چھٹی دی جاتی ہے۔ چین لیبر واچ کے مطابق مزدوروں کو جعلی تنخواہ والی دستاویز پر دستخط کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے اور اس بات کے لیے بھی دباؤ ڈالا جاتا ہے کہ کارخانے کے حالات کے بارے میں باہر کسی سے بات نہ کی جائے۔
اس حوالے سے ہوئی جان گروپ نے اے پی کے بعض مخصوص سوالات کے جواب دینے سے انکار کیا تاہم ان الزامات کو سرے سے مسترد کر دیا۔ اپنے والد ٹرمپ کی سرکاری مشیر بننے سے قبل ہی ایوانکا ٹرمپ نے خود کو اپنے بزنس کے روز مرہ معاملات سے الگ کر لیا تھا لیکن ملکیت برقرار رکھی تھی۔ ایوانکا کی ترجمان نے اس معاملے پر کوئی بیان دینے سے انکار کیا ہے۔