’’ایندھن کے خالی ڈبے نے میری جان بچائی‘‘
30 مارچ 2017اے ایف پی نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے مہاجرین نے بتایا ہے کہ اس حادثے کے بعد کم از کم 146پناہ گزین لاپتہ ہیں۔ اس حادثے میں بچ جانے والے ایک سولہ نوجوان نے بتایا کہ غرق ہونے والی کشتی پر نائجیریا، مالی اور گیمبیا کے شہری سوار تھے۔ اس کے بقول مسافروں میں پانچ بچے اور کچھ حاملہ خواتین بھی تھیں۔ اس نوجوان کا تعلق بھی گیمبیا سے ہی ہے۔
اس نے مزید بتایا کہ اس کشتی نے اتوار پا پیر کو لیبیا کے شمال مشرقی ساحلوں سے اپنا سفر شروع کیا تھا اور اس کی منزل اطالوی جزیرہ لامپے ڈوسا تھی۔ اس نوجوان کے بقول،’’مجھے لووینتا کے قریب ایک جرمن تنظیم کے جہاز نے ڈوبنے سے بچایا۔‘‘ اس کے بقول جرمن تنظیم نے اسے یورپی یونین کے صوفیا نامی آپریشن میں شامل ایک ہسپانوی بحری جہاز کے حوالے کر دیا گیا۔ اس کے بعد سے وہ لامپے ڈوسا کے ایک ہسپتال میں زیر علاج ہے۔
اس نوجوان نے بین الاقوامی تنظیم برائے مہاجرت کے ایک اہلکار کو بتایا،’’سفر کے چند گھنٹوں بعد ہی کشتی میں پانی بھرنا شروع ہو گیا اور میں نے ایندھن کے ایک خالی ڈبے کو پکڑ کر اپنی جان بچائی۔‘‘ حکام کے بقول کشتی مکمل طور پر ڈوب چکی ہے۔ اس لیے اس کا سراغ لگانے میں شدید مشکلات درپیش ہیں۔
اس سال کے آغاز سے اب تک لیبیا کے ساحلوں کے قریب 590 مہاجرین یا تو ہلاک ہوئے ہیں یا لاپتہ ہو چکے ہیں۔ اس دوران مختلف بحری جہازوں کی جانب سے ہزاروں افرار کو بحیرہ روم کی موجوں کی نذر ہونے سے بچایا جا چکا ہے۔